پنجاب سالٹ رینج میں نایاب نباتات و حیوانات معدوم ہونا شروع، ماہرین کا الرٹ

0 5

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع سالٹ رینج جو کہ اپنی نایاب حیاتیاتی تنوع اور قدرتی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے تاہم گزشتہ چند دہائیوں میں شدید ماحولیاتی نقصان کا شکار ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس علاقے میں پائی جانے والی نایاب نباتات و حیوانات کی اقسام تیزی سے معدوم ہو رہی ہیں اور اس کی بنیادی وجوہات میں جنگلی حیات کا شکار، سمگلنگ، غیر منظم کان کنی، آب و ہوا کی تبدیلی، چراگاہوں کی تباہی اور آلودگی شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق سالٹ رینج میں غیرمنظم کان کنی، سیمنٹ فیکٹریوں سمیت دیگرعوامل کی وجہ سے زمین کی ساخت میں تبدیلی، آبی ذخائر کی آلودگی، اور حیاتیاتی تنوع میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

مزید برآں، آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث بارشوں کے انداز میں تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافہ، زمین کی زرخیزی میں کمی اور پانی کی قلت جیسے مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔

سالٹ رینج ویٹ لینڈز کمپلیکس، جس میں کلر کہار، کھبیکی، اچھالی، جھلار، اور نمل جھیلیں شامل ہیں، نایاب پرندوں اور جانوروں کا مسکن ہے۔ یہ علاقہ پنجاب اڑیال، چنکارہ، اور ریڈ فاکس جیسے نایاب جانوروں کے علاوہ، سفید سر والی بطخ، امپیریل ایگل، اور سوشیبل پلوور جیسے عالمی سطح پر خطرے سے دوچار پرندوں کی پناہ گاہ ہے۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سرگرم بدرمنیر جنہوں نے سالٹ رینج حیاتیاتی تنوع پر دستاویزی فلم بھی بنائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سالٹ رینج کی حیاتیاتی تنوع کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، کیونکہ غیر منظم کان کنی اور آب و ہوا کی تبدیلی اس کے ماحولیاتی توازن کو بگاڑ رہی ہے۔

دوسری جانب پاکستان بائیوڈائیورسٹی الائنس کے کوآرڈنیٹر فہد ملک کا کہنا تھا کہ سالٹ رینج میں بے تحاشہ شکار، پوچنگ ، مقامی پودوں کی کٹائی اور جڑی بوٹیوں کی چوری، کان کنی اور سیمنٹ کے کارخانوں نے یہاں کے حیاتیاتی تنوع کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جس کی وجہ سے سالٹ رینج میں پائی جانیوالی جنگلی حیات خاص طور پر کامن لیپرڈ اور بھیڑیئے کی نسل کو نقصان پہنچا ہے اور وہ یہاں سے معدوم ہوگئے ہیں۔

پنجاب حکومت نے حالیہ برسوں میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے متعدد اہم اقدامات کیے ہیں جن کا مقصد جنگلی حیات، قدرتی ماحول، اور خطرے سے دوچار انواع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ان اقدامات میں قانون سازی، پالیسی سازی، تحفظ شدہ علاقوں کی توسیع، ماحولیاتی بحالی کے منصوبے، اور عوامی آگاہی کی مہمات شامل ہیں۔

حکام کے مطابق پنجاب وائلڈ لائف (تحفظ و تحفظ) ایکٹ 1974 میں حالیہ ترامیم کے ذریعے نایاب اور خطرے سے دوچار انواع کے غیر قانونی شکار پر سزاؤں کو سخت کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پنجاب نے ایک جامع "بائیو ڈائیورسٹی اسٹریٹیجی اور ایکشن پلان” تشکیل دیا ہے، جو بین الاقوامی معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے اہداف متعین کرتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر حکومت پنجاب نےآئی یوسی این ، ڈبلیوڈبلیوایف، جی ای ایف اور یواین ڈی پی جیسے اداروں کے ساتھ شراکت داری کی ہے، تاکہ تحقیقی منصوبوں، پالیسی رہنمائی، اور تکنیکی معاونت حاصل کی جا سکے۔ حکومت نے اقوام متحدہ کے کنونشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کے اہداف کو اپنایا ہے تاکہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو عالمی ترجیحات سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔

تاہم، ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام کوششیں کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں جن میں غیر قانونی شکار، قدرتی مسکن کی تباہی، شہری اور زرعی پھیلاؤ، پانی کی آلودگی اور جنگلات کی کٹائی شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان مسائل پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو حیاتیاتی تنوع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.