روز دختر اور دختران بلتستان

بلتستان کی معروف شخصیت اور کالم نگار رسول میر لکھتے ہیں کہ "بلتستان کی بیٹیوں کیساتھ اس بے شرم انسان کی غلیظ اور گھٹیا جنسی چیٹنگ منظر عام پہ آئی تو قائد بلتستان شیخ محمد حسن جعفری نے مرکزی جمعے کے خطبے میں اسے بلتستان چھوڑنے کا حکم دیا۔ سول سوسائٹی نے احتجاج کیا۔ قوم پرست جماعتوں نے تحریک چلائی۔ وکلا برادری نے مذمت کی۔ علماء نے اس کے بھیانک چہرے سے نقاب ہٹایا۔ طلبہ تنظیموں نے اسکے خلاف بیانات دیئے۔ سب سے بڑھ کر حکومت پاکستان کے جنرل آڈیٹر نے اسکی غیر قانونی حرکتوں، یونیورسٹی بجٹ کی اسلام آباد سے لیکر بلتستان تک بندر بانٹ، غیر معیاری اور من پسند تقرریوں اور مالی خرد برد کے حوالے سے ثبوتوں کیساتھ تفصیلی رپورٹ چھپوا دی۔

0 288

تحریر: عارف بلتستانی

بیٹی دنیا کا جگمگاتا دیا ہے۔ باپ کے آنگن کا پھول ہے۔ ماں کے آنچل کی خوشبو ہے۔ بھیا کی غیرت کا مظہر ہے۔ رب کی رحمت اور بخشش کا سلسلہ ہے۔ پیار، محبت اور عشق کا مرکز ہے۔ درد کا مداوا کرنے والی ہستی ہے۔ کبھی راحت تو کبھی چاہت ہے۔ کبھی کبھی سکون اور چنچل سی کھلتی ہوئی کلی ہے۔ خوشیاں بکھیرنے، درد بانٹنے اور مسکراہٹ سے تنہائیوں میں رنگ بھرنے والی ہستی ہے۔ بیٹی تو بیٹی ہے۔ اس کے لئے رنگ و نسل، ذات پات، امیر و غریب اور گورے و کالے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کی عزت اور ان سے محبت کرنا ہر باپ اور بھائی کی فطرت کا حصہ ہے۔ ان کی بنیاد ہی احساسات پر ہے۔ یہی احساسات ہیں کہ جو انسان کی تعلیم اور تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان احساسات کو صحیح سمت دینے کے لئے ایسے ادارے اور اساتید کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان بیٹیوں کو اپنے آنگن کا پھول سمجھیں۔ ایسی تربیت کریں کہ وہ خود بھی اور آنے والی نسلوں کو بھی اقدار انسانی اپنانے پر آمادہ کریں۔ جب ایسے ادارے اور اساتید نہ ملیں تو بیٹیوں کی زندگی اور مستقبل اجیرن بن جائے گا۔ ان عظیم ہستیوں کے احساسات کو لوگ اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ ان کے احساسات سے اپنی غلط نیتوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا وسیلہ بناتے ہیں۔

اس کی تازہ ترین مثال بلتستان یونیورسٹی اور اس کے وی سی (VC) ہیں۔ ہر کوئی اس شخص کے کرتوتوں سے باخبر ہے۔ میں یہاں زیادہ کچھ بھی نہیں لکھوں گا۔ اس کے بارے میں بلتستان کی معروف شخصیت اور کالم نگار رسول میر لکھتے ہیں کہ "بلتستان کی بیٹیوں کے ساتھ اس بے شرم انسان کی غلیظ اور گھٹیا جنسی چیٹنگ منظر عام پہ آئی تو قائد بلتستان شیخ محمد حسن جعفری نے مرکزی جمعے کے خطبے میں اسے بلتستان چھوڑنے کا حکم دیا۔ سول سوسائٹی نے احتجاج کیا۔ قوم پرست جماعتوں نے تحریک چلائی۔ وکلا برادری نے مذمت کی۔ علماء نے اس کے بھیانک چہرے سے نقاب ہٹایا۔ طلبہ تنظیموں نے اس کے خلاف بیانات دیئے۔ سب سے بڑھ کر حکومت پاکستان کے جنرل آڈیٹر نے اس کی غیر قانونی حرکتوں، یونیورسٹی بجٹ کی اسلام آباد سے لے کر بلتستان تک بندر بانٹ، غیر معیاری اور من پسند تقرریوں اور مالی خرد برد کے حوالے سے ثبوتوں کے ساتھ تفصیلی رپورٹ چھپوا دی۔ غریب عوام سالہا سال سے اس کے خلاف چیخ و پکار کر تے رہے۔”

موصوف مزید رقم طراز ہیں کہ "جب آپ ہماری اکلوتی مادر علمی بلتستان یونیورسٹی کو اپنی بچگانہ حرکتوں کا اکھاڑہ بنا دیں، یونیورسٹی کانویکیشن سے لے کر اسلام آباد آفس تک آپ کی بچیاں گھر کا کچن سمجھ کر کھیلتی رہیں۔ بلتستان کی شرم و حیاء اور عفت و ایمان سے مزین قوم کی بیٹیوں کو آپ تعلیم و تربیت کے بجائے اپنی شہوت پوری کرنے کا ذریعہ بنا دیں۔ میری قوم کے تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں لے کر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں اور آپ ملک بھر سے اپنے من پسند لوگوں کی بھرتیاں کرتے رہیں۔ میری قوم کی بیٹیوں کو محض یہ کہہ کر ریجکٹ کریں کہ آپ شرمیلی ہیں اور بے شرم لڑکیوں کو اپنی گاڑی میں ڈال کر یونیورسٹی میں انلوڈ کرتے رہیں۔ کیا بلتستان کی ساری علمی شخصیات اور تعلیم یافتہ نوجوان مر چکے تھے یا پھر اس نااہل، متعصب اور کرپٹ رجسٹرار وسیم اللہ سے کم پڑھے لکھے تھے، جس کو آپ نے صرف اپنی کرپشن چھپانے کے خاطر غیر قانونی طریقے سے لاکر ہم پر مسلط کر دیا ہے۔؟”

اس وی سی (VC) کے مزید کرتوتوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛ "یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں لڑکے اور لڑکیوں کا مکس ڈانس کروا کر بلتستان کی شرم و حیاء اور تہذیب و تمدن کا جنازہ نکال دیا۔ تمام پوسٹوں پر پہلے اپنے چیلوں اور مقامی سہولت کاروں کو غیر آئینی طریقے سے ایڈجسٹ کیا اور پھر ستم بالائے ستم برائے نام ٹیسٹ اور انٹرویو بھی اسلام آباد میں رکھ کر میری قوم کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا نہ صرف وقت اور پیسہ ضائع کیا بلکہ ان کی صلاحیتوں کا بھی مذاق اڑایا گیا۔ عجب مخلوق تھا۔ جس نے میری قوم کے ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز کو نااہل قرار دے کر رجسٹرار کے لئے ایک ماسٹر ڈگری کو سیلکٹ کرکے میری پوری قوم کا مذاق اڑایا۔” تمہاری جنایتیں لکھنے سے قلم قاصر ہے۔ بہتر یہی ہے کہ جب آپ کا آئینی دورانیہ ختم ہوا ہے تو ہماری عزت و غیرت کو مزید للکارنے کی بجائے بلتستان یونیورسٹی کی جان چھوڑ دیں۔ ورنہ اہلیان بلتستان کے بے لوث ترجمان، مجاہد ملت آغا علی رضوی کی ظلم و زیادتی کے خلاف چلنے والی ننگی تلوار تمہاری مکارانہ، ظالمانہ اور جاہلانہ حرکتوں کو کاٹ کر بلتستان سے نکال دے گی۔”

جب اس طرح کے وی سی اور اساتید ملیں تو گل مرجھانے میں دیر نہیں لگتی۔ جب مرجھا جاتا ہے تو دوبارہ کھلنے کا امکان نہیں ہوتا۔ یونیورسٹی گلستان کی مانند ہے، اس کے اساتید باغبان اور اسٹوڈنٹس پھول ہیں۔ اگر باغبان کو باغبانی کرنا نہ آئے تو گلستان کو کھنڈرات میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ ایسے میں گلستان کے ذمہ داروں کو چاہیئے کہ ایک ایسے باغبان کو تلاش کرے، جس کو باغبانی آتی ہو۔ وی سی ایسا ہو جو آنگن کے پھول کو پھول اور آنچل کی کلی کو کلی سمجھ کر پروان چڑھائے۔ یہ وہاں کے خواص اور اس شعبے کے مسئولین پر منحصر ہے کہ گلستان کو کھنڈرات میں بدلنے سے کیسے بچاتے ہیں؟ پرامن جگہ کو نا امنیتی کے دامن سے کیسے بچاتے ہیں؟ وہاں کے پڑھے لکھے غیرت مند جوانوں پر منحصر ہے کہ اس طرح کے وی سی کو اپنی بہنوں پر مسلط کرکے رکھتے ہیں یا کسی اچھے کو انتخاب کرکے وہاں پر لاتے ہیں؟ یہ آپ پر منحصر ہے۔ اگر ایسا کریں تو آپ کو روز دختر مبارک۔۔۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.