امریکہ کا جو یار ہے۔۔۔ ایک نعرہ، ایک حقیقت

0 193

تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان اس وقت شدید سیاسی بحران میں مبتلا ہے، ایک طرف قومی اسمبلی کو صدر پاکستان نے وزیراعظم کے مشورے پہ توڑ دیا ہے اور وزیراعظم و کابینہ کو بر طرف کیا جا چکا ہے۔ دوسری طرف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کو کامیاب ہوتا دیکھ کر آئین کی ایک دفعہ کا سہارا لیتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی ایجنڈا قرار دیتے ہوئے اپنی رولنگ میں خارج کر دیا۔ اجلاس ختم کرنے کا اعلان کیا اور اپنی سیٹ چھوڑ کے نکل گئے، یہ چونکہ اتوار کے دن 3 اپریل کو ہوا، چھٹی ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں جانے والی اپوزیشن نے دروزہ کھٹکٹایا تو اس سے پہلے ہی چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملہ کی سنگینی اور نازک صورتحال کو سنبھالا دیا۔ اب کیس عدالت میں ہے، جہاں فریقین کے وکلاء اپنے اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں، زیادہ تر تو دلائل سامنے آچکے ہیں، بہ ظاہر لگتا ہے کہ جمعہ والے دن تک لازمی فیصلہ ہو جائے گا۔

دوسری طرف افراتفری اور سیاسی انتشار پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اسمبلی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفیٰ اور پرویز الہیٰ کے امیدوار بننے کے بعد سے شدید ہنگامہ آرائی چل رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایک بار پھر ملتوی کیا گیا ہے۔ سپیکر اسمبلی پرویز الہیٰ کے امیدوار بننے کے بعد ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے گذشتہ روز اجلاس طلب کیا تھا، جسے پرویز الہیٰ نے معطل کر دیا بلکہ ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروا دی۔ شدید ہنگامہ آرائی اور جھڑپوں، تالہ بندی، خار دار تار لگانے کے بعد آج اپوزیشن نے مقامی ہوٹل میں اجلاس بلا کر اپنی اکثریت ثابت کی ہے۔ ایک قرارداد کے ذریعے 200 کے قریب اسمبلی ممبران نے حمزہ شہباز شریف کو قائد ایوان یعنی وزیراعلیٰ چنا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعت نے حمزہ شہباز کو فلیٹیز ہوٹل کا وزیراعلیٰ قرار دیا ہے۔

سیاسی افراتفری، ہنگامہ آرائی، عدم استحکام، خلفشار سے ایک طرف تو لوگوں کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ رہا ہے، جو لوگ پہلے ہی اس جمہوریت کو قبول نہیں کرتے تھے، انہیں یہ کہنے کا موقعہ مل گیا ہے کہ یہی ہے وہ جمہوری نطام، جس مین لوگوں کو خرید کر ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں لایا جا سکتا ہے۔ جو زیادہ قیمت لگا دے، وہ خرید لے اور اپنی مرضی کی حکومت مسلط کر دے۔ پاکستان میں ماضی میں بھی عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش ہوئی ہیں۔ بالخصوص بے نظیر کی حکومت کے خلاف نواز شریف کی پارٹی کا عدم اعتماد جو ناکام ہوا تھا، اس کی ویڈیو لوگوں کو بہت پسند آئی ہے کہ جب محترمہ بے نظیر صاحبہ بڑی خندہ پیشانی سے اپوزیشن کے قائد نواز شریف کو ویلکم کہتی ہیں، ان سے حال احوال لیتی ہیں، جبکہ وہ انہیں اقتدار سے الگ کرنے تشریف لاتے ہیں۔

کیا لوگ تھے احترام، اقدار، روایات کے امین، اس کے مقابل موجودہ حالات کو دیکھیں تو عدم برداشت، غیر جمہوری رویوں، غیر آئینی انداز اور اقدامات میں یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ حکومتی ٹیم کو چونکہ سوشل میڈیا پر کافی زیادہ دسترس حاصل ہے اور حکومتی وسائل بھی لمٹ لیس ہیں تو سوشل میڈیا پر کردار کشی، بدتمیزی، بدتہذیبی، گالم گلوچ، سیکینڈلائز کرنا، ٹرینڈ چلانا اب بہت نارمل ہوچکا ہے، جبکہ اس کے معاشرت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ہماری معاشرت اور سماج میں ایسی ایسی کہانیاں اب لمحہ بہ لمحہ سامنے لائی جاتی ہیں، جن کا وجود بھی نہیں ہوتا، مگر سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ ٹیمز کے ذریعے انہیں پھیلا دیا جاتا ہے۔ ہماری سوشل روایات، اخلاقیات اور رکھ رکھائو کا جنازہ اس قدر نکلا ہے کہ سماج کا ہر طبقہ اس میں ملوث نظر آتا ہے۔ سیاست دان، ان کے حامی، ان کی جماعتیں تو ایک دوسرے کو گندا کرنے میں مشغول ہی ہیں، ہمارے نامور صحافی بھی کھل کر تقسیم ہوچکے ہیں اور یہ نہیں کہ ایک طرف والے اچھے ہیں اور دوسری طرف والے بڑے حاجی ہیں، دونوں طرف یعنی حکومت سے قربت رکھنے والے اور حکومت کے سخت ناقد بنیادی اصولوں اور روایات کی پاسداری کی بجائے وقت کی تیز رو میں بہے جاتے ہیں۔

لوگ سیاسی وابستگیوں تک تقسیم نہیں ہوئے، گھروں، محلوں میں بلکہ ایک ایک فیملی میں تقسیم ہو چلی ہے، جبکہ ان رویوں سے لوگوں میں عدم برداشت اور شدت پسندی نے جنم لیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد دو مرکزی وزراء نے اسمبلی میں خودکش حملے کرنے کی بات کی، یہ شدت پسندی نہیں تو اور کیا ہے؟ عدم اعتماد پیش کرنا ایک آئینی عمل ہے، جس کا استحقاق ہے، اس کو خندہ پیشانی سے نبھانا چاہیئے تھا، اس پر ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔الزامات کی بھرمار اور ہنگامہ آرائی، گھیرائو، حملوں سے آپ نے جو اکثریت کھوئی ہے، وہ واپس تو نہیں آسکتی، جو عمل سرانجام دیا جا رہا ہے، اس سے معاشرت اور سوسائٹی پر جو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، وہ بھی واپس نہیں آئیں گے۔ پہلے سے تقسیم شدہ معاشرہ مزید تقسیم اور تفریق کا نمونہ بن کر رہ گیا ہے۔

اس ملک کے لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ یہاں لوگوں کو غدار، کافر، ایجنٹ جیسے لیبل لگا دیئے جاتے ہیں۔ ایسی ایسی شخصیات اور ملک کے خدمت گاروں پر یہ لیبل لگ چکے ہیں کہ آج اسی کا تسلسل قومی اسمبلی کے 197 اراکین خود کو ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی روشنی میں اس الزام تلے محسوس کر رہے ہیں اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس سنگین الزام کی تحقیق کرائی جائے، اگر ہم میں سے کسی نے غداری کی ہے تو اس کی سزا دی جائے۔ غدار قرار دے کر انہیں کھلا چھوڑ دینا کہ جائو الیکشن میں حصہ لو، کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ اس کا فیصلہ ہونا چاہیئے، اگر ایسا کوئی عمل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان پہ آرٹیکل5 لاگو ہوتا ہے تو اس عمل کو سامنے لایا جانا از بس ضروری ہے۔ الزام لگانے والوں کے بعد ملزمان کو اپنی صفائی کا موقعہ بھی دیا جانا ضروری تھا، جو نہیں دیا گیا۔ اگر اتنا سنگین مسئلہ تھا تو تسلی سے بھی اس پہ بات ہوسکتی تھی، مگر اس دن 3 اپریل کو پہلے سے لکھی تحریر، پہلے سے طے کیا گیا الزام ہی سامنے آئے، جو اس معزز ایوان کی توہین کےمترادف تھا۔

سازش اپنی جگہ ایک حقیقت ہوسکتی ہے، جس کا تعین بھی ابھی تک نہیں ہوا، ہم تو ویسے ہی امریکہ سے کبھی بھی خیر کی توقع نہیں رکھتے، اس کی بدمعاشی، لوٹ مار، سازشوں کو بے نقاب کرتے آرہے ہیں اور ہر حکومت کو متنبہ بھی کرتے آرہے ہیں کہ امریکہ کا دم چھلا نہ بنو، یہ حکمران اور دیگر مقتدر قوتیں ہی ہیں، جو امریکہ و سعودی دم چھلا بننے میں فخر محسوس کرتی ہیں اور اپنے پاک وطن، اس پاک سرزمین، اس کے دستور، آئین، اس کے اقتدار اعلیٰ کا سودا کرتی ہیں۔ ماضی گواہ ہے کہ کس طرح ہمارے سویلن و فوجی طالع آزمائوں نے اس ملک کو عالمی استعمار کے ہاں گروی رکھا۔ اس وقت پاکستانی ملت کے سامنے استعمار گردی، اس کی کھلی مداخلت اور دھونس، دھمکیوں کو بے نقاب کرنے کا بہترین موقعہ ہے۔ اگر یہ روش یونہی قائم رہی تو اگلے الیکشن میں بھی وہی نعرے گونجتا نظر آئیگا، جو اس روز اسمبلی فلور پر لگا اور پوری دنیا نے سنا ہے۔
امریکہ کا جو یار ہے
غدار غدار ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.