دنیا بھر میں نوجوانوں کا خبروں کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار بڑھنے لگا

0 6

دنیا بھر کے نوجوان اب خبریں حاصل کرنے کے لیے اخبار یا ٹی وی کے بجائے سوشل میڈیا اور چیٹ بوٹس جیسے جدید ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔قومی اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزمرہ خبروں تک رسائی کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی چیٹ بوٹس، جیسے کہ چیٹ جی پی ٹی کی جانب بڑھ رہی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے منسلک رائٹرز انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف جرنلزم کی سالانہ رپورٹ میں ادارے کی ڈائریکٹر میتالی مکھرجی نے لکھا کہ پہلی بار ایسا دیکھا جارہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ سرخیاں اور اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیے چیٹ بوٹس کا استعمال کر رہے ہیں۔یہ سالانہ رپورٹ ان افراد کے لیے انتہائی اہم سمجھی جاتی ہے جو میڈیا کی بدلتی صورتحال پر نظر رکھتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک بڑی تعداد اب بھی خبروں کو پڑھنے کو ترجیح دیتی ہے، جب کہ تقریباً ایک تہائی افراد آن لائن ویڈیوز کے ذریعے خبریں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور 15 فیصد ایسے افراد ہیں جو خبروں کو سننا پسند کرتے ہیں۔نوجوان افراد خبروں کو دیکھنے یا سننے کو نسبتاً زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور یہ رجحان خاص طور پر امریکا کے نوجوانوں میں نمایاں ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکا میں 35 سال سے کم عمر کے نصف سے زائد افراد سوشل میڈیا اور ویڈیو پلیٹ فارمز کو خبروں کے بنیادی ذرائع کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔رپورٹ میں شامل تمام ممالک کے 18 سے 24 سال کی عمر کے 44 فیصد افراد نے کہا کہ وہ سوشل اور ویڈیو نیٹ ورکس سے خبریں حاصل کرتے ہیں۔چیٹ بوٹس میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نام اوپن اے آئی کا چیٹ جی پی ٹی ہے، جس کے بعد گوگل کا جیمینائی اور پھر میٹا کا لاما آتا ہے۔

پڑھنے والوں نے چیٹ بوٹس سے حاصل ہونے والی متعلقہ اور ذاتی نوعیت کی خبروں کو سراہا۔مزید برآں 27 فیصد افراد نے اے آئی کا استعمال خبروں کا خلاصہ حاصل کرنے کے لیے کیا، 24 فیصد نے ترجمہ کرنے کے لیے اور 21 فیصد نے آرٹیکلز کی سفارشات حاصل کرنے کے لیے، جب کہ تقریباً پانچ میں سے ایک فرد نے موجودہ حالات سے متعلق سوالات کیے۔

تاہم، رپورٹ میں بتایا گیا کہ اے آئی سے متعلق خدشات اب بھی موجود ہیں جن میں شفافیت، درستگی اور بھروسا کم ہونے جیسے پہلوؤں پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ جوئے روگن جیسے مشہور پوڈکاسٹرز امریکا میں خبروں کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور روایتی امریکی میڈیا اب آن لائن شخصیات اور کریئیٹرز کے مقابلے میں پیچھے ہو رہا ہے۔

نمونے میں شامل ایک پانچواں حصہ ان امریکیوں کا تھا جنہوں نے جوئے روگن کی خبروں یا تبصروں کو صدارتی حلف برداری کے بعد والے ہفتے میں دیکھا یا سنا، جب کہ 14 فیصد نے تجزیہ کار ٹوکر کارلسن کو خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا یا سنا۔رپورٹ کے مطابق اگرچہ یہ آن لائن شخصیات مقبول ہیں، لیکن انہیں اور سیاستدانوں کو دنیا بھر میں جھوٹی یا گمراہ کن معلومات کے سب سے بڑے ذرائع کے طور پر دیکھا جاتا ہے، امریکا میں خاص طور پر سیاستدانوں کو اس حوالے سے سرفہرست سمجھا جاتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.