اتحاد بین المسلمین سے پہلے اتحاد بین المومنین کی اشدضرورت ہے، رمضان توقیر

0 34

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ محمد رمضان توقیر نے ڈائریکٹر شوریٰ نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اتحاد بین المسلمین سے پہلے اتحاد بین المومنین کی ضرورت ہے اس کے بغیر ملت تشیع کیلئے مشکلات ہی مشکلات ہیں اور رہیں گی ہماری تو ہمیشہ سے کوشش رہی کہ شیعہ کے تمام طبقات کو اکٹھا کیا جائے اس حوالے سے پچھلے دنوں ہم نے قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی کی قیادت میں علماء و ذاکرین کی کانفرنس کا بھی کامیاب انعقاد یقینی بنایا اور ملت تشیع کے تمام طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ ایسی قوتیں جو ملت تشیع کو متحد نہیں دیکھنا چاہتیں وہ خرابیاں پیدا کرتی رہتی ہیں اس وقت جو صورتحال دنیا میں یا پاکستان میں چل رہی ہے تو اس صورت میں اتحاد بین المومنین کی اشد ضرورت ہے اس میں ہر ایک کا اپنا اپنا کردار ہے جو اُنہیں ادا کرنا چاہیے۔

میں یہاں ایک واقعہ بیان کرتا چلوں کہ ذاکر اہلیبیت وسیم عباس بلوچ کو ایک مجلس کے دوران جب دعوتِ خطاب دی گئی تو کسی مومنین نے ایک نعرہ لگوایا جو تفریق کا باعث تھا تو وسیم بلوچ ناراض ہو گئے اور اُس شخص کو سرزنش کی اور کہا کہ آپ نے تو مجلس کا ماحول ہی خراب کر کے دیا ہم لوگ اتحاد کی طرف رواں دواں ہیں آپ لوگ پھر سے نفاق کی باتیں کر رہے ہو یہ وسیم بلوچ کیجانب سے ایک اچھا اقدام تھا جو قابل ستائش ہے۔ یقیناً ملت کے درمیان اختلافات کو پروان چڑھانے کیلئے کچھ لوگ موجود ہیں جو موقع کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن ہمیں فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے اختلافات کو ختم کرنا چاہیے تاکہ ہم مضبوط ہوں اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ 1979ء میں بھکر میں آل پاکستان شیعہ کنونشن کا انعقاد کیا گیا، جس میں پوری قوم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کنونشن میں مفتی جعفر حسین قبلہ کو قائد ملت جعفریہ منتخب کیا گیا جب مفتی جعفر حسین کی قیادت کا اعلان ہوا تو ہم لوگ بحیثیت طالب علم پروگرام میں شریک تھے حتی کہ پنڈال کیلئے شامیانے وغیرہ بھی درست کرتے رہے اُس وقت سے ہم تحریک کیساتھ مربوط ہوئے اور آج تک مربوط ہیں خدا کرے کہ ہم ہمیشہ ثابت قدم رہیں۔ اتحاد بین المومنین کے حوالے سے شہید عارف حسین الحسنیی نے بہت زیادہ کوششیں کیں کیونکہ کے پی کے کے ساتھ میرا تعلق تھا، شہید عارف حسین الحسنیی کے بہت زیادہ قریب بھی رہا اور وہ ہم سےمحبت بھی کرتے تھے اس لیے میں بہت زیادہ حقائق سے بھی واقف ہوں کہ کس طرح انہوں نے ملت کو ایک کرنے کی کوشش آخری دم تک جاری رکھیں۔

عزاداری کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر اُنہوں نے کہا کہ امسال محرم الحرام کے حوالے سے مسائل اور مشکلات کے حل کیلئے قائدملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے محرم کمیٹی تشکیل دیدی ہے جو عزاداری کے حوالے سے ملک بھر میں پیدا ہونیوالے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کیلئے بھرپور معاون ثابت ہو گی۔ عزاداری کا فروغ اور اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اربعین واک پر حکومت پنجاب کی جانب سے کوئی بھی اقدام ہمارے حقوق ، ہماری آزادی اور آزادی اظہار رائے پر حملہ کے مترادف ہوگا جسے ہم کسی بھی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اہلسنت برادران کیلئے یہاں ایک بات عرض کرتا جائوں کہ اسی ملک میں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت پر عیسائی برادری جلوس اور ریلیوں کا انعقاد کرتی ہے اور وہ ’’ابن اللہ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں جو کہ نہ ہی اہلسنت کے عقیدہ کے مطابق اور نہ ہی اہل تشیع کی عقیدہ کی رو سے درست ہے پھر بھی سب برداشت کرتے ہیں جب اُنہی بازاروں اور چوکوں پر نواسہ رسول کی یاد میں جلوس نکلے یا لبیک یا حسینؑ کا نعرہ لگایا جائے ، ماتمداری ہو یا عزاداری ہو تو وہ برداشت کیوں نہیں ہوتی اُس کیلئے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔عیسائی چونکہ پاکستانی ہیں اُن کے حقوق کا تحفظ بھی ہمارا حق ہے اسی طرح شیعہ کے جو حقوق ہیں بحیثیت پاکستانی اُن کا بھی خیال رکھنا ہر ایک پاکستانی کالازم ہے۔

شیعہ مسنگ پرسنز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے جوانوں کو بلاوجہ اُٹھا لیا جاتا ہے اور یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اس حوالے سے ڈی آئی خان میں یہ مسائل زیادہ تھے ہم نے بھرپور کوشش کرکے اپنے لاپتہ جوانوں کو آزادی بھی دلوائی ہے یہ مسئلہ آج کل زیادہ کراچی میں ہے ۔ حقیقت یہ بھی ہے بعض اداروں میں ہر طرح کے اور ہر مزاج کے لو گ موجود ہوتے ہیں وہ بھی مسائل پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بات تو طے شدہ ہے کہ ہمارے جوانوں میں سے اگر کسی نے پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کی یا ملکی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے تو ہم اُن کی حمایت نہ کرتے تھے اور نہ کبھی کریں گے لیکن ان سب معاملات کو دیکھنے کیلئے پاکستان میں عدالتی نظام موجود ہے اس لیے ان معاملات کو عدالتوں میں لایا جائے نہ کہ ہمارے جوانوں کو اُٹھا کر خود سے اقدامات شروع کر دیئے جائیں۔
ایک سوال کے جواب می اُن کا کہنا تھا کہ مقابلہ بالمثل ہر وقت مفید نہیں ہوتا یہ ہماری اتحاد بین المسلمین کیلئے ایک کامیاب کوشش تھی جس کے تحت متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں آیا جس کے تحت ہم نے بحیثیت مسلمان آپس میں اتحاد قائم کیا اور کامیابیاں سمیٹیں حتی کہ ایک صوبہ میں اقتدار بھی حاصل کیا۔ اس سے قبل ہمارے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کیا جاتا تھا کہ کبھی شیعہ کافر کے نعرے لگا کر تو کبھی توہین آمیز طریقے اپنا کر ہمارے نوجوانوں کے جوش ابھارا جاتا۔ نفرت کا جو بیج پاکستان میں بونے کی کوشش کی گئی اُس میں علمائے کرام کی بیداری سمجھداری سے ہم نے دشمن کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا ۔کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک سمجھتا ہے اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو آخری نبی سمجھتا ہے وہ مسلمان ہے دائرہ اسلام میں وہ داخل ہو گیا ہے وہ نماز کیسے پڑھتا ہے کیسے نہیں پڑھتا یہ بعد کی اور فروعی باتیں ہیں۔ اتحاد بین المسلمین سے جو فائدہ ملت تشیع کو ملا ہو وہ شاید ہی کسی کو ملا ہو۔ جب انتخابات ہوتے تھے تو کافر کافر شیعہ کافر کے نعرے لگائے جاتے تھے ہم چونکہ مولانا فضل الرحمان کے حلقہ سے تھے اور اُن کے ووٹرز تھے ظاہر ہے جب ہم نے اتحاد کیا تو ہم نے تعاون بھی کیا جلسوں میں ،میں ساتھ ہوا کرتا تھا کبھی کبھی کسی جگہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی شیعہ بھی موجود نہیں ہوتا تھا کیونکہ کسی گائوں میں شیعہ ہوتے تھے کسی گائوں میں بالکل ہی نہیں ہوتے تھے جب بھی کھانے کا وقت ہوتا چونکہ ہمارے علاقہ میں صحبت کی ثقافت موجود ہے جس میں ایک ہی برتن میں سب مل کر کھاتے ہیں تو منتظمین تمام مہمانوں کو اکٹھا بٹھانے پر مجبور ہوتے تھے کیونکہ میں ایک جماعت کا نمائندہ بھی تھا اور اپنا ایک مقام اور ایک عزت تھی۔ اب جب صحبت کھاتے تو گھی سے تر اُسی برتن میں میرا ہاتھ بھی ہوتا تھا اور مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر علماء کا ہاتھ بھی اور لوگ دیکھتے اور بعد میں بعض علماء سے سوال بھی ہوتا تھا کہ ہمیں تو کہتے ہو کہ یہ کافر ہیں اور خود اُنہی کیساتھ ایک برتن میں کھانا کھاتے ہو حالانکہ مولانا فضل الرحمن نے کبھی بھی ایسا نہیں کہا کیونکہ وہ اتحادکے قائل تھے۔ اسطرح شیعہ کے خلاف ایک تاثر کو زائل کرنے میں مدد ملی۔اگر ہماری طرف سے بھی اسی نوعیت کا جواب ہوتا یا کافر والا تاثر دیا جاتا تو مسائل کبھی بھی حل ہونے کا نام نہ لیتے اور کہاں کہاں لڑائی ہوتی ۔اتحاد و وحدت کیلئے ہزاروں لاکھوں کے جلوسوں اور ریلیاں نکالنے سے بدرجہا بہتر یہ کلیہ تھا اور اذہان کو تبدیل کرنا ذریعہ بھی۔ اُس زمانہ میں اتنی نفرت پروان چڑھ چکی تھی کہ سکولوں میں جب چھٹی کا ٹائم ہوتا دوپہر کا کھانا کھایا جاتا تو شیعہ اساتذہ کیساتھ دوسرے کھانا تک نہیں کھایا کرتے تھے۔نفرت کی وہ شدت اس درجہ بڑھ چکی تھی کہ شیعہ دُکانداروں سے سودا سلف تک نہیں لیا جاتا تھا۔ ہم نے قائدملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی کی قیادت میں اس نفرت کو بھی ختم کیا اور اتحاد و یگانگت کا ماحول بھی پیدا کیا یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تحریک جعفریہ اور شیعہ علماء کونسل کا جو قوم کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔

ایران کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ایران کیساتھ ہماری محبت ایک فطری جذبہ ہے جو لوگ شعور رکھتے ہیں اور شیعت کی تاریخ سے واقف ہیں وہ بہتر جانتے ہیں کہ دین حق کیلئے جب بھی قربانیاں دینے کا وقت آیا تو مومنین نے اپنی زندگیوں کی کبھی پرواہ نہیں کی اور ایران چونکہ شیعہ اکثریتی ملک ہے ، پوری دنیا میں مثالی کام بھی کر رہا ہے اس سارے نظام میں عملی طور پر علمائے کرام کا اہم کردار بھی موجود ہے تو ہمارے ایران باعثِ فخر تو ہونا ہی چاہیے۔

رجیم چینج کی سازشوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ انقلاب ایران سے ہی رجیم چینج کی سازشوں کا آغاز ہو ا حتی کہ آیت اللہ روح اللہ موسوی خمینیؒ کی حکومت کے 10سال بھی دشمن نے بھرپور سازشیں کیں اور حکومت اور نظام حکومت کی تبدیلی کیلئے بہت سے فتنے کھڑے کرنے کی کوشش کی لیکن کسی بھی صورت دشمن کو کسی بھی نوعیت کی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔آج جب کہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی محبت ایرانی عوام کے دلوں میں موجزن ہے تو کیسے ممکن ہے کہ محض ایک صیہونی حکومت کی احمقانہ خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے عوام اپنے رہبر اور رہنما کے خلاف کھڑی ہو جائے۔ایرانی عوام شاہِ ایران کو ہرگز پسند نہیں کرتی تھی تو جب شاہِ ایران کو ناپسندیدگی کی نگاہِ سے دیکھا جاتا تھا تو اُس کے بیٹے کو کس طرح اہمیت دی جائے گی جبکہ پوری ایرانی عوام کے علم میں یہ بات ہے کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کا خاص آدمی ہے ۔

دنیا بھر میں اُمت مسلمہ کے اتحاد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر تمام مسلمان آزاد ہو کر یہ اتحاد کیلئے اقدامات کریں تو آپ یقین کریں کہ مسلمانوں کا مقام بہت زیادہ بلند ہوگا ہماری بھی خواہش ہے کہ تمام مسلمان ممالک ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔فلسطین کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ بیت المقدس کی آزادی کی جنگ لڑی جا رہی فلسطین کا دو ریاستی حل کوئی حل نہیں ہے فلسطینیوں کا جو حق ہے وہ اُن کو ہر صورت ملنا چاہیے جب سے پاکستان کو آزادی نصیب ہوئی ہے یہ مملکت معرض وجود میں آئی ہے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کہ دیا تھا کہ یہ ناجائز ریاست ہے اس لیے سب سے پہلے پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے اُس کے پاسپورٹ پر اس ناجائز ریاست کے حوالے سے وضاحت بھی موجود ہےکہ ’’سوائے اسرائیل کے پوری دنیا کیلئے یہ پاسپورٹ قابلِ استعمال ہے‘‘ اور یہ بات ہمارے باعثِ فخر ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.