پشاور ہائیکورٹ، سانحہ سوات پر 14 روز میں جامع رپورٹ طلب
پشاور ہائی کورٹ نے سانحہ سوات اور دریاؤں پر قائم تجاوزات کے خلاف دائر درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کر دیا جس میں 27 جون کو دریائے سوات میں پیش آنے والے المناک واقعے کو متعلقہ حکام کی سنگین غفلت قرار دیتے ہوئے واقعے کی جامع تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکام کی غفلت کے باعث 17 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور اس سانحے کے باوجود سیاحوں کی حفاظت کے لیے ہیلی کاپٹر یا کوئی اور ہنگامی طریقہ کار استعمال نہیں کیا گیا جو عوامی خدمت میں مجرمانہ کوتاہی ہے۔
عدالت نے نشاندہی کی کہ خیبرپختونخوا کے مختلف دریاؤں بشمول دریائے سوات، پنجکوڑہ، دیر، سندھ، کابل اور چارسدہ پر غیر قانونی ہوٹلز اور عمارتوں کی تعمیر معمول بن چکی ہے جو انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن چکی ہیں، ان عمارتوں کی موجودگی اداروں کی ناکامی اور خاموش تماشائی بنے رہنے کا ثبوت ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے ہدایت کی کہ سانحہ سوات پر قائم تحقیقاتی کمیٹی 7 روز میں اپنی ابتدائی تحقیقات مکمل کرے اور 14 روز میں ایک جامع رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا بھی یہ وضاحت کریں کہ عوام کے تحفظ کے لیے اب تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔
عدالت نے ہدایت کی کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی بھی رپورٹ دے کہ مون سون جیسی ہنگامی صورتحال میں ہیلی کاپٹرز استعمال کیوں نہ کیے گئے جبکہ موسم صاف تھا اور دو ہیلی کاپٹرز موجود تھے۔
سندھ ہائیکورٹ نے تمام متعلقہ اداروں کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ مون سون بارشوں کے پیش نظر تمام حفاظتی اقدامات مکمل کریں اور اپنی کارکردگی کی تفصیل بھی رپورٹ کی صورت میں عدالت کے سامنے پیش کریں۔
سانحہ سوات کے بعد عدالت کی یہ سخت کارروائی حکام کی جواب دہی اور مستقبل میں قیمتی جانوں کے تحفظ کے لیے ایک سنگ میل تصور کی جا رہی ہے۔