فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں5 رکنی لارجربینچ نے کی، بینچ میں جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آخری آرڈرکے مطابق اٹارنی جنرل کے دلائل چل رہے تھے، اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوجائیں پھرکیس چلانےکا طریقہ کار دیکھیں گے۔
درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل اس کیس کے فیصلے سے پہلے ہی شروع کردیا گیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر سب کو سنیں گے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نےدلائل میں کہا کہ آگاہ کروں گا کہ 2015 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں کیوں بنائی تھیں، عدالت کو یہ بھی بتاؤں گا کہ اس وقت فوجی عدالتوں کے لیے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا 2015 کے ملزمان عام شہری تھے، غیرملکی یا دہشت گرد؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں ممنوعہ علاقوں میں حملے والوں کے فوجی ٹرائل کی شق شامل کی گئی تھی۔