فیض آباد دھرنا کیس،سب کو معلوم ہے کون کررہا تھا لیکن نام لینے کی ہمت نہیں

0 106

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل، شیخ رشید کے وکیل اور خود شیخ رشید عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے شیخ رشید سے سوال کیا کہ آپ نے نظرثانی دائر کیوں کی تھی؟ اس پر ان کے وکیل نے کہا کہ ایجنسیوں کی رپورٹ سے کچھ غلط فہمیاں ہوئیں جس پرنظرثانی دائرکی۔

پاکستان مذاق تو نہیں ہے، اس ملک کو مذاق نہ بنایا جائے کہ جو دل چاہے کریں، نظرثانی دائرکرنا تو ٹھیک ہے مگر4 سال بعد واپس لینا عجیب فیصلہ ہے۔عدالت نے شیخ رشید کی نظرثانی درخواست واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز سمیت سب لوگ قابل احتساب ہیں، ایسا تاثرہے کہ سپریم کورٹ بھی باہر سے کنٹرول ہورہی ہے، کہا جاتا ہے کہ فلاں کیس میں فلاں فیصلہ ہوگا، عدالت میں سچ کوئی نہیں بولتا کہ کس کے کہنے پرنظرثانی درخواست کی، نفرتیں پھیلاکرپھر لوگ خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں، سڑکیں بند کرنے اوراملاک جلانے والوں کو ہیروکہا جاتا ہے، پہلے دھرنےکے حق میں بیانات دیے، اب عدالت آکرکہہ رہےہم کیس نہیں چلاناچاہتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ شیخ رشید کا نام آئی ایس آئی کی رپورٹ میں تھا، شیخ رشید خود پارلیمنٹیرین تھے،کیوں آئی ایس آئی کےخلاف کارروائی نہیں کی؟

اس دوران اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں پیش کردیا اور بتایا کہ انکوائری کمیشن فیض آباد دھرنے کے محرکات کی تحقیقات کرے گا،عدالت نے وفاقی حکومت کو انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز میں ایک اضافہ کرنے کی ہدایت کی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.