جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم کورٹ کے ججز کے نام کھلے خط میں کہا کہ بطور سپریم کورٹ جج پاکستانی عوام کی خدمت کر رہا ہوں، سپریم جوڈیشل کونسل کی بوگس کارروائی کو چیلنج کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔
میری ساکھ نمایاں جبکہ میرے عہدے کی ساکھ اور بھی نمایاں ہے، اس خط کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ یہ میری ذات کا نہیں بلکہ اصول کا معاملہ ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے سابق چیف
جسٹس اعجاز الاحسن کا رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھا گیا خط ظاہر کرتا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی کیسے خلاف ورزی کی جا رہی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر یہ بینچ تشکیل کیوں دیا؟ اس کا فیصلہ آپ جج صاحبان خود کریں۔
خط کے متن کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں میرے خلاف چلنے والے ریفرنس پر مس انفارمیشن حیران کن ہے، جج کو استثنیٰ کے باوجود اثاثے ڈکلیئر نہ ہونے کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے؟
میں نے نومبر کے مہینے میں 9 کی اور دسمبر میں 2 ریکارڈ کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو تحریری درخواستیں دیں اس کے باوجود میری درخواست نہیں سنی گئی۔
11 دسمبر کو آدھی رات کے قریب سپریم جوڈیشل کونسل کے 14 دسمبر کے اجلاس کا نوٹس موصول ہوا، تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ سپریم کورٹ میں درخواستوں کے باوجود سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلایا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا اقدام ان کی میرے خلاف جانبداری ثابت کرنے کیلئے کافی ہے، ان کا میرے خلاف مقصد صاف اور پہلے سے ظاہر شدہ ہے۔