آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواستوں پر سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیک کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر سماعت کی

0 63

اسلام آباد(شوریٰ نیوز) آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواستوں پر سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ،چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیک کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر سماعت کی تفصیلات کے مطابقسپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواستوں پر سماعت مکمل ہو گئی ہے اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیک کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر سماعت کی، جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری، ایس سی بی اے کے سیکریٹری مقتدیر اختر شبیر، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے دائر کی ہیں۔عمران خان کی طرف سے ڈاکٹر بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری اور سیکریٹری بار مقتدر اختر شطیر ، درخواست گزار ریاض حنیف راہی اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ان چاروں درخواستوں میں آڈیو کمیشن کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بابر اعوان نظر آرہے تھے۔اٹارنی جنرل روسٹرم پرآگئے، انہوں نے پانچ رکنی لارجر بنچ پر اعتراض اٹھا دیا جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہوگیا ہے اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی، ہم نے سوال پوچھا کہ 184 (بی) میں لکھا ہے کم از کم 5 ججز کا بینچ ہو، اگر آپ نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو بتاتے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعے کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہو گئی، حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا، 9 مئی کے سانحے کے بعد عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کہ قانون سازی جلدی میں کی۔اٹارنی جنرل پاکستان نے چیف جسٹس کے بنچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھا دیا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.