پشاور(شوریٰ نیوز)ملکی سیاسی صورتحال کے حوالے سے جوں جوں وقت گزر رہا ہے اصل حقائق سامنے آرہے ہیں۔ عمران خان ہو یا ان کی قیادت میں پی ٹی آئی، ہم نے 10 سال سے زیادہ عرصہ ہوا، ان کے بارے میں جو قوم کو کہا تھا اور بڑے دعوے کے ساتھ ہم نے یہ بات کی تھی، حقائق تک پہنچ کر ہم نے یہ بات کی تھی کہ یہ ایک بیرونی ایجنٹ ہے، یہو دی لابی کے ساتھ اس کے رابطے ہیں اور ان رابطوں کے بہت سے حوالے ہمارے پاس تھے۔ ان خیالات کا اظہارقائد جمعیتہ علماء اسلام پاکستان مولانا فضل الرحمٰن کا مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ 2018 کے الیکشن میں اسراائیل اور اس کی خفیہ ایجنسی مو ساد کی طرف سے، انڈیا اور اس کی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے اور بعض عالمی قوتوں کی طرف سے جو ان کی مالی مدد تک بھی کی گئی اور اس کے حق میں پروپیگنڈے کیے گئے، اس کے لیے آسمان کی قلابے ملانے لگے سب کچھ کیا انہوں نے لیکن آپ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہم نے اس پروپیگنڈے چاہے عالمی سطح پر ہو، چاہے ہمارے ملک کے میڈیا کی سطح پر ہو، چاہے ہماری اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر ہو، ہم نے نہ کمپرومائز کیا نہ اپنے موقف سے ہٹے اور ایک ہفتہ قبل جب اقوام متحدہ میں اسراائیل نے پاکستان پر 75 سال کے بعد پہلی مرتبہ تنقید تھی وہ ایک ناجائز تنقید تھی۔ پاکستان نے اس کو تسلیم نہیں کیا، اسراائیل نے ہمیں تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان نے اپنے قیام سے پہلے سن 1940 کی قرارداد میں فلسطین کی سرزمین پر یہو دی بستیاں قائم کرنے کی مخالفت کی تھی اور فلسطینیوں کے حق کے لیے آواز بلند کی تھی یعنی قیام پاکستان کی جو بنیاد ہے اس میں فلسطینیوں کے حق میں پاکستان کا موقف اور وہاں پر صہیو نیوں کے موقف کے خلاف پاکستان کا موقف یہ پاکستان کے اساس میں شامل ہے اور جب اسراائیل وجود میں آتا ہے تو اسراائیل کے اس وقت کا وزیراعظم اپنے خارجہ پالیسی کی پہلی پالیسی بیان میں کہتا ہے کہ اسراائیل کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ایک نوزائدہ مسلم ریاست (پاکستان) کا خاتمہ ہوگا، تو پاکستان کے بارے میں اسراائیل کی سوچ اول دن سے اس کی اساس میں شامل ہے اس کے بعد پاکستان پر ایسے حکمران کہ جو لندن میں اگر الیکشن ہوتا ہے تو یہ اس کینڈیڈیٹ کی حمایت کے لیے یہاں سے جاتا ہے کہ جو کنزرویٹو فرینڈز آف اسراائیل جیسی تنظیم کی طرف سے وہ نمائندہ ہو۔ آج امریکی کانگرس میں، اسراائیل فرینڈز کمیٹی کے بڑے جو پاکستان میں کی علیحدگی پسند تحریکوں کے بھی حامی ہے، پاکستان توڑنے کے سازشوں میں بھی شریک ہے اور وہ برملا عمران خان کی حمایت کر رہا ہے اور پاکستان کی اوپر تنقید کر رہا ہے، لیکن اقوام متحدہ کے فورم پر پہلی مرتبہ اسراائیل نے آکر اپنا نقاب اپنے چہرے سے اتار دیا ہے۔ اس نے پی ٹی آئی کے گرفتار لوگوں کو ناجائز گرفتاری سے تعبیر کیا ہے اور دعوی کیا کہ ان پر تشدد ہو رہا ہے اور ان کے خلاف جو ہرزہ سرائی خود عمران خان نے کی اور اپنے ہی لوگوں کے بارے میں یہ مشہور کیا کہ ان کے ساتھ جنسی تشدد ہوا ہے۔ اسراائیل کے نمائندے نے پاکستان پر یہی الزامات لگائے۔ اب آپ خود اندازہ لگائیے کہ کہاں سے اس کی ڈوری ہل رہی ہے۔ آج آپ کو معلوم ہے جب اس کی حکومت ختم ہوئی تو اس نے ایک سفید کاغذ لہرایا، اپنے آپ کو مظلوم بنایا، چورن بیچا اس نے کہ امریکہ نے میرے خلاف سازش کی ہے، ایک سائفر کو اس نے لیٹر کا نام دیا، اس نے خط کا نام دے دیا، اس نے ایک سازش کا نام دے دیا، جو سفارت خانے کا معمول کا عمل ہے، آج اس کا اپنا پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سواتی بیان دے رہا ہے کہ سب ڈرامہ تھا، تو یہ بھی کہتا ہے کہ میں نے اس کو روکا بھی کہ یہ بات بنتی نہیں ہے اور پھر جو امریکہ کا مہرہ ہے پاکستان میں، وہ امریکہ کے خلاف بات بھی کرتا ہے تاکہ میرا کسی طریقے سے پاکستان میں ایک چورن بک سکے اور اس حوالے سے اپنے آپ کو مظلوم بناؤں۔ پاکستان کی عوام آزادی منش عوام ہیں، یہاں پر عمومی سوچ امریکہ کے خلاف ہے، تو عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، پہلے ائیڈیل اور نظریاتی باتیں بڑے عجیب عجیب قسم کے نظریات پیش کر کے انہوں نے نوجوان ذہن کو گمراہ کیا، عوام کو گمراہ کیا اور پھر اس نے ایک مرتبہ عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جس کی حقیقت بھی آج سامنے آگئی ہے، اس کے اپنے گھر سے ”شہد شاہد من اہلک” اپنے گھر سے اس پر گواہی آرہی ہے، یہ سارے حقائق اب حقائق ہیں ان کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اور مزید انتظار کیجئے، حالات کیا کیا گل کھلاتا ہے، کیا حقائق سامنے لاتے ہیں۔ تو یہ ایک مختصر سی گفتگو میں آج پھر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ یہ سب وہ باتیں ہیں کہ جہاں تاریخ کا آنے والا ایک ایک ورق، یہ تاریخ پر ثبت اور ان کے صفحات پر ثبت ہماری موقف کی تائید کرتے چلے جا رہی ہیں۔ قوم کو سوچنا چاہیے دانشوروں کو سوچنا چاہیے، لوگوں کو سوچنا چاہیے، نوجوانوں کو سوچنا چاہیے، قوم کے آنے والے معماروں کو سوچنا چاہیے کہ اس نظریے کے ساتھ اور اس کردار کے ساتھ انہوں نے ملک کو چلانا ہے، ملک کی قیادت کرنی ہے کل، یہ میرا فرض ہے کہ میں حقائق سے عوام کو آگاہ کروں، اپنی قوم کو آگاہ کروں، پبلک کو آگاہ کروں اور اپنے جوانوں کو آگاہ کروں اور میں یہ فریضہ ادا کرتا رہوں گا ان شائاللہ العزیز، اللہ مجھے توفیق عطا فرمائے۔ ساتھ ہی میں یہ بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا، اس سے پہلے جمعیت علمائے اسلام کی دستوری کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس نے جمیعت کے دستور پر غور کیا، اس میں کچھ ترامیم تجویز کی اور ان ترامیم کی تائید مرکزی مجلس عاملہ نے کی اور حتمی منظوری کے لیے ان شائاللہ مرکزی مجلس شوری میں پیش کیا جائے گا جو 5 اگست کو طلب کیا جا رہا ہے۔ تو اس اعتبار سے ہم الیکشن میں بھرپور حصہ لیں گے اور ہماری مجلس شوری پہلے بھی اس بات کا اعلان کر چکی ہے کہ ہم پورے ملک میں ہر سیٹ پر اپنا امیدوار لائیں گے، الیکشن لڑیں گے اور پھر اگر ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہوئی تو پھر اس حوالے سے ہماری جو ذیلی تنظیمیں ہیں وہ اپنے ماحول کے تحت ایڈجسٹمنٹ بھی کر سکیں گی، کسی جماعت کے ساتھ بھی، تو یہ چیزیں ہماری مرکزی مجلس عاملہ نیطے کیے ہیں اور انٹرا پارٹی کی الیکشن کے لیے آج سے یکم محرم سے ہماری رکن سازی کا آغاز ہو رہا ہے اور ان شائاللہ العزیز پہلے مرحلہ جو ہے ہماری رکن سازی کا ہوگا اور ہم عوام میں جائیں گے، ہم پبلک میں جائیں گے، ہم کارکنوں میں جائیں گے اور ایک عمومی طور پر لوگوں کو دعوت دیں گے، اس قافلہ حق میں شامل ہونے کے لیے اس کے بعد تنظیم سازی کا مرحلہ شروع ہوگا، جو ہمارے یونٹ سے لے کر تحصیل، ضلع صوبہ اور پھر مرکز تک کے انتخابات ہوں گے اور ان شائاللہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہماری تنظیمی ڈھانچہ جو ہے وہ قائم ہوگا اور وہ پھر آئندہ ملکی سیاست پہ اپنے منشور کو کس طرح پیش کرتا ہے، اس کے لیے کیا حکمت عملی بناتا ہے، ہم الیکشن میں ان شائاللہ جب یہ جمعیت علماء اسلام کا منشور لائیں گے اور ایک بھرپور منشور جو قرآن و سنت کی روشنی میں ہے، ان شائاللہ پاکستان کے مسائل کا حل وہی ہے، آئین پاکستان قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کی بات کرتا ہے اور ہم بھی اسی حوالے سے ان شائاللہ العزیز قوم کے سامنے اپنا منشور لائیں گے، اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو نئی رکن سازی کے لیے ہم نے مولانا عطاء الحق درویش صاحب جو ہمارے صوبہ خیبر پختونخواہ کی جمعیت کے جنرل سیکرٹری ہے وہ ہمارے الیکشن کمشنر ہوں گے جو مرکزی ناظم انتخابات ہوں گے اور وہ رکن سازی کی نگرانی کریں گے۔