دماغ کا جی پی ایس سسٹم سائنسدانوں نے دریافت کرلیا

0 234

اسمارٹ فون کے بغیر بھی ہم نیوی گیشن کے مشکل ترین کام آسانی سے کر لیتے ہیں۔مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا راز سائنسدانوں نے جان لیا ہے۔

درحقیقت ہمارے دماغ کے اندر ایک قدرتی کمپاس موجود ہوتا ہے جو جی پی ایس کی طرح کام کرتا ہے۔درمیانی عمر میں ورزش کو عادت بنانے سے صحت کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں؟

سائنسدانوں نے دماغ کے ایسے حصے کو دریافت کیا ہے جو کسی کمپاس کی طرح کام کرتے ہوئے اردگرد کے ماحول میں راستے تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

یہ دماغی حصہ اعصابی خلیات کو برقی سگنل بھیج کر آگاہ کرتا ہے کہ کسی نئے راستے پر کس جانب جانا ہے،برطانہ کی برمنگھم یونیورسٹی اور جرمنی کی Ludwig Maximilian یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں یہ دریافت کی گئی۔

محققین نے بتایا کہ راستوں کو شناخت کرنا ہمارے لیے بہت اہم ہوتا ہے اور اندازے کی معمولی غلطی بھی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے، ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ پرندوں، چوہوں اور چمگادڑوں میں اس طرح کا قدرتی نظام راستوں کو تلاش کرنے میں مددفراہم کرتا ہے۔

حیران کن طور پر ہم انسانی دماغ کی اس صلاحیت کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں،اس تحقیق میں 52 صحت مند افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے سروں پر ای ای جی مانیٹر لگائے گئے تاکہ راستے پر چلتے ہوئے دماغی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔

اس سے ہٹ کر مختلف دماغی امراض کے شکار 10 افراد کی بھی دماغی مانیٹرنگ کی گئی اور انہیں مختلف راستوں پر چلنے کی ہدایت کی گئی،دونوں تجربات کی مدد سے سائنسدان سمت کا تعین کرنے والے دماغی سگنل کو شناخت کرنے کے قابل ہوگئے۔

وہ آسان طریقہ جس سے آپ خود کو جان لیوا امراض سے محفوظ رکھ سکتے ہیں، یہ سگنلز ایک اندرونی دماغی کمپاس کی طرح کام کرکے ہمیں راستے تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.