بھارت کی مودی حکومت نے اپنی پاکستان دشمن پالیسی کو وسعت دیتے ہوئے ترکی اور آذربائیجان کے خلاف نئی سفارتی، تجارتی اور تعلیمی محاذ آرائی کا آغاز کر دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق، دونوں ممالک کی جانب سے فلسطینی مزاحمتی آپریشن "بنیان مرصوص” کی حمایت پر بھارت سیخ پا ہو گیا ہے۔
مودی حکومت نے نئی دہلی ایئرپورٹ پر کام کرنے والی ترک گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنی ‘Çelebi’ پر سیکیورٹی خدشات کا الزام لگا کر اس کے آپریشنز معطل کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ، بھارتی ای کامرس پلیٹ فارمز جیسے Myntra اور Flipkart نے ترک فیشن برانڈز کی فروخت عارضی طور پر روک دی ہے۔
ترکی سے آنے والے سیب، ماربل اور دیگر اشیائے خوردونوش کی درآمدات پر غیر علانیہ پابندی کے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ جواہرات فروش اور زیورات ڈیزائنرز نے روایتی ترک زیورات کی نمائش اور فروخت بند کر دی ہے۔
مودی سرکار نے ترکی سے تعلیمی روابط بھی منقطع کر دیے ہیں۔ جے این یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو حکومتی دباؤ کے تحت ترک اداروں کے ساتھ جاری تعلیمی معاہدے ختم کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
بھارتی فلمی پروڈکشن ہاؤسز کو ترکی اور آذربائیجان میں شوٹنگ سے روک دیا گیا ہے۔ فلمی بورڈ نے تنبیہ کی ہے کہ جو ادارے ترک و آذری لوکیشنز پر فلم بندی کریں گے، ان کے مواد پر بائیکاٹ مسلط کر دیا جائے گا۔
بھارتی فلمی صنعت میں بھی انتہا پسندی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستانی گلوکاروں اور فنکاروں کی تصاویر بھارتی فلمی مواد سے ہٹائی جا رہی ہیں۔ بی جے پی کے ایک سینئر رہنما نے بیان دیا ہے کہ:“جو کمپنیاں ترکی یا آذربائیجان سے کاروبار کریں گی، اُن کا بھی بائیکاٹ ہوگا!”
مودی حکومت نے متحدہ عرب امارات، ایران اور دیگر خلیجی ممالک سے آنے والی اشیاء پر سخت چیکنگ کا عمل شروع کر دیا ہے، جسے سیاسی مبصرین پاکستان نواز ممالک پر دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔