یورپ میں سوشل میڈیا تک بچوں کی رسائی محدود کرنے کیلئے مزید اقدامات کا مطالبہ
بچوں کے لیے نقصان دہ آن لائن مواد کے پیش نظر کئی یورپی ممالک نے سوشل میڈیا تک بچوں کی رسائی محدود کرنے کے لیے اقدامات شروع کردیے۔عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں پہلے ہی بڑی ٹیک کمپنیوں پر لگام ڈالنے کے لیے دنیا کے سخت ترین ڈیجیٹل قوانین موجود ہیں، اور اس بات پر متعدد تحقیقات کی جاری ہیں کہ پلیٹ فارمز بچوں کا تحفظ کیسے کرتے ہیں، اور کرتے بھی ہیں یا نہیں۔اب یورپی یونین سے مزید اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کے بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات کے شواہد سامنے آ رہے ہیں۔
فرانس اور اسپین کی حمایت سے یونان نے ایک تجویز پیش کی ہے کہ یورپی یونین کو بچوں کے آن لائن پلیٹ فارمز کے استعمال کو کیسے محدود کرنا چاہیے کیونکہ بچوں کو ان آن لائن پلیٹ فارمز کی لت لگ جانے کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔اس تجویز میں 27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین میں ڈیجیٹل طور پر بالغ ہونے کی عمر مقرر کرنا شامل ہے، جس کا مطلب ہے کہ بچے والدین کی رضامندی کے بغیر سوشل میڈیا تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔فرانس، یونان اور ڈنمارک کا خیال ہے کہ 15 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی ہونی چاہیے، جبکہ اسپین نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے پابندی کی تجویز دی ہے۔
واضح رہے کہ نومبر 2024 میں آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کا نفاذ اس سال کے آخر میں ہو جائے گا، جبکہ نیوزی لینڈ اور ناروے بھی ایسی ہی پابندی پر غور کر رہے ہیں۔فرانس نے پلیٹ فارمز کے خلاف کریک ڈاؤن میں پیش قدمی کی ہے، فرانس نے 2023 میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت آن لائن پلیٹ فارمز کے 15 سال سے کم عمر کے صارفین کے لیے والدین کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔لیکن اس اقدام کو یورپی یونین کی جانب سے نافذ العمل ہونے کے لیے درکار رضامندی حاصل نہیں ہوئی۔
فرانس نے اس سال بالغوں کی تمام ویب سائٹس کے لیے صارفین سے عمر کی تصدیق کی شرائط کو بھی بتدریج متعارف کرایا تاکہ بچوں کو فحش مواد تک رسائی سے روکا جا سکے۔فرانسیسی حکومت کے دباؤ کے تحت اتوار کو ٹک ٹاک نے ’#SkinnyTok‘ ہیش ٹیگ پر پابندی لگا دی، اس ہیش ٹیگ سے ٹک ٹاک پر تشویش ناک حد تک وزن گھٹانے کے رجحان کو فروغ مل سکتا تھا۔فرانسیسی وزیر برائے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کلارا چاپاز نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ ہمارے پاس ایک موقع ہے جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے، اور یہی بات میں آج یورپی کمیشن کو بھی بتانے آئی ہوں، عمر کی تصدیق ممکن ہے۔’انہوں نے بالغوں کی ویب سائٹس کے لیے فرانس میں ’ جاری’ کام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سوشل میڈیا کے لیے بھی یہی چاہتے ہیں۔
کلارا چاپاز نے مزید کہا کہ اگرچہ تجویز پیش کرنے والے ممالک پابندی کی عمر پر متفق نہیں تھے، لیکن وہ سب عمر کی تصدیق کو صحیح طریقے سے نافذ کرنے کی ضرورت پر ضرور متفق تھے۔انہوں نے لکسمبرگ میں کہا کہ تشویش یہ ہے کہ سات یا آٹھ سال کے چھوٹے بچے بھی 13 سال کی کم از کم عمر کے باوجود غلط تاریخ پیدائش دے کر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آسانی سے اکاؤنٹ بنا سکتے ہیں۔ڈینش ہم منصب کیرولین اسٹیج اولسن نے زور دیا کہ بچوں کو آن لائن اتنا ہی تحفظ حاصل ہونا چاہیے جتنا انہیں حقیقی دنیا میں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ آج کے مقابلے میں بہتر طور پر محفوظ ہوں۔’
فرانس، یونان اور اسپین نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے الگورتھمک ڈیزائن پر تشویش کا اظہار کیا ہے جو بچوں کو لت لگانے والے اور نقصان دہ مواد کے سامنے آنے کے تناسب میں اضافہ کررہا ہے، جس سے بچوں میں اضطراب، ڈپریشن اور خود اعتمادی کے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔یہ تجویز کم عمری میں حد سے زیادہ اسکرین ٹائم کو بھی نابالغوں کی تنقیدی اور تعلقات کی مہارتوں کی نشوونما میں رکاوٹ کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔فرانس، یونان اور اسپین یورپی یونین بھر میں ایسی ایپلی کیشن کا مطالبہ کررہے ہیں جو والدین کے کنٹرول کے میکانزم کو سپورٹ کرتی ہو، عمر کی صحیح تصدیق کی اجازت دیتی ہو اور نابالغوں کے ذریعہ بعض ایپلی کیشنز کے استعمال کو محدود کرتی ہو۔ہدف یہ ہوگا کہ اسمارٹ فونز جیسے آلات میں ان بلٹ عمر کی تصدیق ہو۔
یورپی کمیشن، جو یورپی یونین کا ڈیجیٹل نگران ادارہ ہے، اگلے مہینے عمر کی تصدیق کی ایپ شروع کرنا چاہتا ہے، جس میں اس بات کا خیال رکھا جائے عمر کی تصدیق ذاتی تفصیلات ظاہر کیے بغیر کی جاسکے۔یورپی یونین نے گزشتہ ماہ نابالغوں کے تحفظ کے لیے پلیٹ فارمز کے لیے رہنما اصول شائع کیے تھے، جنہیں اس ماہ ایک عوامی مشاورت کے اختتام کے بعد حتمی شکل دی جائے گی، جس میں بچوں کے اکاؤنٹس کو بطور ڈیفالٹ ’ پرائیویٹ’ پر سیٹ کرنا، اور صارفین کو ’ بلاک ’ اور ’ میوٹ ’ کرنا آسان بنانا شامل ہے۔