امریکا کی سفری پابندی ’نسل پرستانہ ذہنیت‘ کی عکاسی کرتی ہے، ایران
تہران نے ایران سمیت دیگر مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے 11 شہریوں پر امریکا کی جانب سے عائد سفری پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کا یہ فیصلہ ’نسل پرستانہ ذہنیت‘ کی علامت ہے۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت ان کے پہلے دور حکومت کی طرح چند ممالک پر سخت پابندیاں دوبارہ نافذ کی گئیں۔اس آرڈر کے کے تحت 12 ممالک کے شہریوں پر امریکا آنے کی پابندی عائد کی گئی ہیں، جن میں زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک شامل ہیں۔
امریکا کی جانب سے یہ پابندیاں قومی سلامتی کی بنیاد پر نافذ کی گئیں، جو کولوراڈو میں اسرائیل کے حق میں نکالی گئی ایک ریلی پر بم حملے کے بعد عائد کی گئی ہیں۔بیرونِ ملک ایرانیوں کے امور کے ایرانی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل علی رضا ہاشمی کا کہنا تھا کہ 9 جون سے نافذ العمل ہونے والا یہ اقدام امریکی پالیسی سازوں کے درمیان ایک بالادست اور نسل پرستانہ ذہنیت کی واضح علامت ہے۔وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یہ فیصلہ امریکی فیصلہ سازوں کی ایران اور مسلم عوام کے خلاف گہری دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔
امریکی سفری پابندیوں کا اطلاق ایران کے علاوہ، افغانستان، میانمار، چاڈ، کانگو-برازاویلے، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر لاگو ہوگا جب کہ 7 دیگر ممالک کے مسافروں پر جزوی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ہاشمی راجہ نے کہا کہ یہ پالیسی ”بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے“ اور ”صارفین کو صرف ان کی قومیت یا مذہب کی بنیاد پر سفر کے حق سے محروم کر دیتی ہے“۔بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پابندی عالمی قوانین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے جو کروڑوں لوگوں کو صرف قومیت یا مذہب کی بنیاد پر ان کے حق سے محروم کرے گی۔
ایران اور امریکا نے 1979 کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے، اور تب سے دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں جب کہ امریکا میں بڑی تعداد میں ایرانی مقیم ہیں۔ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق 2020 میں امریکا میں تقریباً 15 لاکھ ایرانی مقیم تھے۔