صدری تسلسل اورآیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد الیعقوبی

عرفان علی/قم المقدسہ

0 12

نجف اشرف صدیوں سے علمی، فقہی اور روحانی مرجعیت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں کے علماء نے دین کی خدمت فقہ، اصول اور علمِ رجال جیسے علوم کے ذریعے کی ہے۔ مگر عصرِ حاضر میں جب اسلام کو سیاسی میدان میں راہنمائی دینے کی ضرورت تھی، نجف کا عمومی رجحان سیاست سے اجتناب اور ولایتِ فقیہ جیسے انقلابی تصور سے گریز کا رہا ہے۔

شہید صدرین کی شہادت: خاموشی کی قیمت
یہ بات غور طلب ہے کہ جب آیت اللہ العظمیٰ شہید محمد باقر الصدر نے "اسلامی نظامِ حکومت” کے قیام کے لیے آواز بلند کی، تو وہ تنہا کھڑے تھے۔ نجف کا عمومی ماحول ان کے ساتھ نہ تھا۔ بعثی آمریت کے خلاف ان کی پکار، ولایتِ فقیہ کی حمایت، اور اسلامی نظام کی تشکیل کا ان کا خواب تنہا پن کا شکار رہا — اور یہی تنہائی ان کی شہادت کا سبب بنی۔
اسی طرح ان کے فکری و روحانی وارث، شہید آیت اللہ العظمیٰ محمد صادق الصدر بھی جب عوامی میدان میں اُترے اور سیاسی و سماجی قیادت کا بیڑا اٹھایا، تو وہ بھی نجف کے عمومی رویے سے کٹ کر، تنہا آگے بڑھے۔ ان کی شہادت بھی اسی رجحان کا تسلسل تھی، جو سیاسی میدان میں خاموشی کو تحفظ سمجھتا ہے، جبکہ حق گوئی کی قیمت، جان کی قربانی ہے۔

مرجعیتِ خاموشہ اور عالمی قبولیت
اس پس منظر میں، جب ہم نجف کے چار سرکردہ مراجع کا جائزہ لیتے ہیں — جنہوں نے 2003 کے بعد اسلامی حکومت کے قیام کی بجائے "دولة مدنية” (سول ریاست) کا مطالبہ کیا — تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ وہی خطِ فکر ہے جو صدریں سے مختلف رہا ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ سید علی الحسینی السیستانی کا موقف اس حوالے سے نمایاں ہے۔ ان کے نمائندہ حامد الخفاف نے واضح طور پر بیان کیا کہ:سید السیستانی دینی حکومت کے قیام کے خواہاں نہیں ہیں۔”
یہی موقف وہ چیز ہے جس کی وجہ سے عالمی طاقتیں، بالخصوص مغربی دنیا، اور خطے کی خلیجی حکومتیں، نجف کی اسی مرجعیت کو ترجیح دیتی ہیں۔ انہیں ایسی مرجعیت قابلِ قبول ہے جواسلامی نظام کے قیام کی داعی نہ ہو،عوام کو انقلاب کی طرف نہ لے جائےاور خطے کے جغرافیائی و سیاسی توازن کو چیلنج نہ کرے۔
چنانچہ مرجعیتِ نجف کو "معتدل” اور "غیر سیاسی” سمجھ کر اسے مرجعیتِ انقلاب یعنی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ‌ای کی قیادت پر ترجیح دی جاتی ہے۔ کیونکہ سید خامنہ ای کا وجود اسلامی بیداری، مزاحمت، اور امّت کے اجتماعی شعور کا استعارہ ہے، جو مغرب اور اس کے علاقائی اتحادیوں کو چبھتا ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد الیعقوبی اور صدری تسلسل
ان سب کے درمیان آیت اللہ العظمیٰ شیخ محمد الیعقوبی کا وجود نجف میں شہید باقر الصدر کے فکری مشن کا تسلسل ہے۔ وہ ولایتِ فقیہ کے قائل، اسلامی نظام کے داعی، اور امت کے سیاسی و روحانی مسائل پر بھرپور موقف رکھنے والے فقیہ ہیں۔ ان کی مرجعیت، نجف کے عمومی رجحان سے مختلف ہے اور اسی لیے بہت سی عالمی اور مقامی قوتوں کے لیے ناگوار بھی ہے۔

دو راستے، دو انجام
ایک راستہ: خاموشی، اجتنابِ سیاست، اور عالمی قبولیت — مگر امت کی بے سمتی کا سبب۔
دوسرا راستہ: قیادت، مزاحمت، اور شہادت — مگر حق کی علَم برداری۔
تاریخ گواہ ہے کہ شہید الصدر اور شہید الصدر الثانی نے دوسرا راستہ چُنا، اور آج بھی جو ان کے وارث ہیں، وہ یہی راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔امت مسلمہ کے لیے فیصلہ کا وقت ہے کہ وہ خاموش مرجعیت کو ترجیح دے یا متحرک قیادت کو، جو نہ صرف فتویٰ دیتی ہے، بلکہ امت کو اُٹھنے، سوچنے اور بدلنے کی ہمت بھی دیتی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.