پاکستان فارماسیوٹیکل ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے چیئر مین میاں خالد مصباح نے نجی نیوز چینل کو بتایا کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر، خام مال کی قیمت اور افراط زر کی شرح میں اضافے کے سبب دوا ساز ادارے بھاری پیداواری لاگت سے ادویات تیار کرتے ہیں۔
ڈریپ کی جانب سے پرائزنگ پالیسی2018کے تحت جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں سالانہ7 سے10فیصد اضافے کی منظوری دی جاتی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی فارما کمپنیوں نے متعدد دوائیں بنانا بند کردی ہیں۔
پاکستان میں اب صرف10ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیاں رہ گئی ہیں جو یہ جان بچانے والے ادویات تیار کر رہی ہیں، طلب میں اضافہ دیکھ کر مارکیٹس میں غیر معیاری جعلی ادویات بھی ملنی شروع ہو جائیں گی، حکومت نے دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح غیر ضروری ادویات پر سے پرائس کنٹرول ختم کرکے ان کو ڈی ریگولیٹ کردیا ہے۔
پاکستان میں494جان بچانے والی ادویات ہیں،انڈیا میں384اور بنگلہ دیش میں117جان بچانے والیں ادویات ہیں جبکہ سری لنکا میں60جان بچانے والی ادویات ہیں۔
یہ تینوں ملک جان بچانے والی ادویات کی قیمت کو کنٹرول کرتے ہیں،دوا ساز ادارے کتنے مہینے یا سال نقصان کے باوجود ادویات خود تیار کریں گے؟،ان کو بھی بجلی کا بل دینا ہوتا ہے،ان کو مزدوروں کی تنخواہیں دینی ہوتی ہیں۔
ڈریپ کی پرائزنگ پالیسی2018کے تحت ہمیں جان بچانے والی ادویات کی قیمت میں7فیصد اضافے کی منظوری ملی ہے،جون میں سال کی افراط زر کی شرح کا تجزیہ ہوگا،ہر ماہ35سے40فیصد مہنگائی ہورہی ہے۔
سالانہ شرح افراط زر کم سے کم 25 سے 30 فیصد تو ہوگی، ہمارا بینک مارک اپ ریٹ 22 فیصد ہے، مہنگائی 30 فیصد ہے، ہمارا ڈالر 100 روپے سے 280 پر آ گیا ہے، تو ظاہری بات ہے کہ ایسی صورتحال میں جان بچانے والی ادویات کی قیمت میں 7 فیصد اضافے کی منظوری پر ان کی فراہمی ممکن نہیں رہے گی۔