برطانیہ کی ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں آتشزدگی سے 36 اپارٹمنٹس کو شدید نقصان پہنچا۔ اس سانحے کی ذمہ داری اب سولر پینلز پر عائد کردی گئی ہے۔ مشرقی لندن میں اپارٹمنٹس بلڈنگ سے متعلق فائر رسک اسیسمنٹ میں یہ بات نہیں بتائی گئی کہ یہ سولر پینل آٹھ سال قبل نصب کیے گئے تھے۔
پیمبیوری اسٹیٹ (ڈیلسٹن لین، ہیکنے) سے 50 سے زائد مکینوں کو منتقل کیا گیا تھا۔ یہ 5 جون کی بات ہے۔ تب سے اب تک یہ لوگ اپنے گھروں میں واپس نہیں آسکے ہیں۔ عمارت کی چھت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مرمت یا تعمیر نو میں وقت لگے گا۔
اس رہائشی عمارت کی ہاؤسنگ ایسوسی ایشن نے 2019 میں تیار کی جانے والی فائر رسک اسیسمنٹ میں بتایا تھا کہ اپارٹمنٹس کی چھت پر کوئی سولر پینل نصب نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ چھت پر کم از کم آٹھ سال سے سولر پینل نصب تھے۔ فائر سیفٹی کے ایک غیرجانب دار ماہر نے بتایا کہ یہ غلط بیانی انتہائی خطرناک تھی جس نے درجنوں زندگیوں کو خطرات سے دوچار کیا۔
لندن میٹروپولیٹن پولیس نے بتایا کہ جس آگ کو بجھانے میں 100 فائر فائٹرز کو دو گھنٹے لگے اس کے بنیادی اسباب کے تعین کے لیے تفتیش جاری ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطبق فائر سیفٹی کے ماہر آرنلڈ ٹارلنگ کا کہنا ہے کہ اگر اپارٹمنٹس کی چھت پر سولر پینلز نہ ہوتے تو آگ لگنے کا احتمال نہ ہوتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2011 میں مصنوعی سیارے سے لی گئی اس عمارت کی ایک تصویر میں چھت پر سولر پینل دیکھے جاسکتے ہیں۔ آرنلڈ ٹارلنگ نے کہا کہ اگر فائر بکس میں غلط معلومات ہوں تو فائر فائٹرز کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
گزشتہ جولائی کی ایک فائر رسک اسیسمنٹ میں بھی عمارت کی چھت پر سولر پینلز کی موجودگی کا ذکر نہیں تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چھت پر سولر پینل معیاری طریقے سے نصب نہیں کیے گئے تھے۔
لندن فائر بریگیڈ نے بتایا ہے کہ 2018 سے اب تک لندن کے مختلف علاقوں میں سولر پینلز کے باعث آگ لگنے کے 31 واقعات ہوچکے ہیں۔
تازہ ترین واقعہ جس عمارت کا ہے اُس کے مکینوں نے بتایا ہے کہ انتظامیہ نے خطرے کا احساس ہونے پر بھی چھت کی مرمت کا انتظام نہیں کیا جس کے باعث پوری چھت دو گھنٹے میں بیٹھ گئی۔