شام میں رہنے والے فلسطینیوں کو برسوں بعد یرموک قبرستان میں جانے کی اجازت مل گئی۔
عرب میڈیا کے مطابق دارالاحکومت دمشق کے قریب واقع یرموک کیمپ شام میں خانہ جنگی کے آغاز میں ہی حملوں کی زد میں آ گیا تھا۔
بمباری اور محاصرے کے دوران آبادی کی اکثریت نے کیمپ چھوڑ دیا تھا اور 2018 میں حکومت کے قبضے میں آنے تک یہ علاقہ کھنڈر بن چکا تھا۔
بشار الاسد کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد یہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کو برسوں بعد واپسی کی اجازت ملی ہے۔
بشار الاسد حکومت نے 2018 میں دمشق کے جنوب میں واقع یرموک کیمپ کے قبرستان تک عوامی رسائی پر پابندی عائد کردی تھی، تاہم اب شام میں رہنے والے فلسطینیوں کو یہاں آنے کی اجازت مل گئی ہے۔
انہی میں ایک 45 سالہ رضوان عدوان بھی ہیں جو اپنے والد کی قبر کو دوبارہ تعمیر کررہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اگر اسد حکومت نہ گرتی تو ان کے لیے اپنے والد کی قبر کو دوبارہ دیکھنا ناممکن ہوتا۔
یرموک کیمپ 1950 کی دہائی میں ان فلسطینیوں کے لیے بنایا گیا تھا جو اسرائیل کے قیام کے بعد اپنے وطن سے بے دخل ہو گئے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ رہائشی اور تجارتی مرکز بن گیا۔
2011 میں شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے پہلے یہاں تقریباً ایک لاکھ 60 ہزار فلسطینی اور ہزاروں شامی رہائش پذیر تھے۔