توہین عدالت، ڈی سی اور پولیس گیم کا حصہ بنے ،کیا ٹھیک ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

0 93

ڈی سی اسلام آباد اور ایس ایس پی کے خلاف توہین عدالت کیس میں ہائیکورٹ نے سوال اٹھایا کہ ڈی سی اور پولیس بڑے گیم کا حصہ بن گئے تو ٹھیک ہے؟ آپ ثابت کریں کہ ڈپٹی کمشنر نے جو ایم پی او آرڈرز کیے وہ قانون کے مطابق ہیں۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ایس ایس پی جمیل ظفر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، ایس پی جمیل ظفر کی طرف سے ایڈوکیٹ شاہ خاور جبکہ ڈی سی راولپنڈی اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس بابر ستار نے ڈی سی راولپنڈی اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ پیش نہیں کر رہے آپ بھی ان کی طرح توہین عدالت کا سامنا کرنا چاہتے ہیں، جس کے بعد ایم پی او ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی آپریشنز کے وکلاء نے جسٹس بابر ستار پر اعتراض اٹھایا۔ وکیل ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ پراسیکیوٹر نے عدالت میں جو ریکارڈ پیش کیا۔

اس کی کاپی ہمارے پاس نہیں جبکہ وکیل ایس ایس پی نے کہا کہ میری جانب سے بھی اعتراض ہے عدالت کے سامنے رکھنا ہے اور ہماری استدعا ہے کہ کیس دوسری عدالت کو منتقل کر دیا جائے۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک سادہ سا کیس ہے جوکہ رول آف لاء کا معاملہ ہے، اس کیس کو کسی اور جج کو ٹرانسفر نہیں کر رہے، آپ دلائل دیں۔

اگر ان کے ایم پی او آرڈرز ٹھیک تھے تو فیصلہ آجائے گا، انہوں نے کئی دن تک اس ملک کے شہریوں کو جیل میں رکھا ہے، عدالتی آرڈرز موجود ہیں ان کا کوئی ایم پی او آرڈر برقرار نہیں رہا۔

ایڈوکیٹ شاہ خاور نے کہا کہ یہ مشکل حالات میں ڈیوٹی کر رہے ہوتے ہیں وار ان پر بھی کئی قسم کے دباؤ ہوتے ہیں۔ جسٹس بابر ستار نے سوال اٹھایا کہ ہم اب یہ کہیں کہ پولیس آفیسر اور دیگر کسی گریٹ گیم میں مہرے بن جائیں؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.