سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے کراچی میں میدیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سیاست میں فعال ہونے کا فیصلہ کیا ہے، میرے پاس دو آپشن ہیں یا تماشائی بن جاؤں یا کچھ کروں۔ اب میں نے کچھ کرنے کا حتمی فیصلہ کیا ہے، کب اور کیا کرنا ہے اس بارے میں جلد اپنی حکمت عملی کا اعلان کردوں گا۔
انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل سے ملاقات ہوئی، اس طرح کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ میری نئی حکمت عملی میں ایم کیوایم یا اسٹیبلشمنٹ پر بالکل انحصار نہیں ہے۔
مجھ پر پاکستان آنے پر کوئی پابندی نہیں، ایم کیوایم کے دوست مجھ سے خوفزدہ رہے جس کے سبب آنے سے گریز کیا، میں نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے کام نہیں کیا۔
پی ایس پی بنانے جیسا بے وقوفانہ مشورہ نہیں دے سکتا میں نے دوستوں کو ایم کیوایم میں رہتے ہوئے سیاست کا مشورہ دیا تھا مگر کچھ لوگوں نے بات نہ مانی، کراچی میں ترقیاتی کاموں کی ابتر صورتحال کی ذمہ دار پیپلزپارٹی سے زیادہ کراچی کی حاکمیت کے دعویدار ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے زرداری صاحب سے کراچی کے لیے کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کرائے، انہوں نے 2016 میں پارٹی میں شمولیت کی دعوت بھی دی، نعمت اللہ خان بہت اچھے انسان تھے، انہوں نے شہر کے لیے اچھے کام کیے۔
متحدہ اور پی ایس پی کا انضمام آرگینک (فطری) نہیں تھا۔ انضمام کے بعد متحدہ کے بہت سے لوگ غیر فعال ہوگئے ہیں سب کو ایک ساتھ ملانا چاہیے تھا ، وہ جلد سندھ میں یورپین سرمایہ کاری لانے پر کام کر رہے ہیں۔
جو لوگ حکومت میں ہیں ان کا اخلاقی جواز کمزور ہے اور قانونی حیثیت چیلنج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار سے ملاقات رہتی ہے ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری اچھا کام کر رہے ہیں ، پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عالمی سطح پر ساکھ متاثر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کار پاکستان آنے سے گریز کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ کے جو لوگ پاکستان گئے ان کو پریشانی ہوئی۔بابر غوری گئے تو گرفتار کرادیا گیا کہ ان کی وجہ سے ہمارا پروجیکٹ خراب ہوجائے گا جبکہ بابر غوری اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے گئے تھے ۔
پی ٹی آئی کو جذباتی حمایت حاصل ہے، پی ٹی آئی کی حکومتی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ایک ضمنی الیکشن میں بہت تناؤ تھا، پی ٹی آئی نے جناح گراؤنڈ میں جلسے کا اعلان کیا، خطرناک صورتحال ہوگئی میں نے عمران خان کو فون کیا جس پر عمران خان نے میرا مشورہ مان لیا۔
انہوں نے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 12 مئی کے بعد انتہائی کشید ہ حالات میں سیاسی استحکام بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ 12 مئی کے واقعہ کو روکنے کی بھرپور کوششیں کیں مگر روک نہ سکا ۔ اس کے بعد 25 سے 27 مئی کو ایک ہڑتال کی کال دی گئی تھی اس دوران معلوم ہوا کہ فضل الرحمان اور قاضی حسین آرہے ہیں پھر میں اسفندیار ولی کے پاس چلا گیا میری کوششوں سے ہڑتال مؤخر ہوگئی، مجھے اطمینان ہے کہ اس معاملے پر شہر میں ایک بڑا خون خرابہ ہونے سے بچالیا تھا۔
سیاسی جماعتوں کا ایک مزاج ہوجاتا ہے،کھیلنے کے لیے بہت بڑا میدان ہوتا ہے ۔اسٹیبلشمنٹ کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ سے غلطی ہوسکتی ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کبھی اینٹی اسٹیٹ نہیں ہوسکتی۔ اس وقت ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے، محب وطن سیاستدانوں کو آگے بڑھنا چاہیے ،سینیئر سیاستدان آگے بڑھ کر ملکی سیاسی تناؤ کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔