بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں مظالم اور ریاست کے نظر انداز کیے جانے نے استعفے پر مجبور کیا، ریاست میں عدلیہ، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور میڈیا شامل ہے۔
بلوچستان میں سیاسی مداخلت اور سیاسی ہیرا پھیری روز اول سے ہو رہی ہے، بلوچستان میں عسکریت پسندی یا جذباتیت لانےکا کام ریاست نے خود کیا، ریاست نے اپنی زیادتیوں اور ناانصافیوں سے لوگوں کو مشتعل کیا، لوگ پہاڑوں پر گئے کیوں ؟ پہلے تو لوگ پہاڑوں پر نہیں تھے۔
ایوب خان کے دور میں عام معافی کا اعلان کیا گیا، پہاڑوں پر موجود لوگوں نے سیاست میں حصہ لیا، پہاڑوں پر موجود لوگوں نے 1970 کےالیکشن میں کامیابی حاصل کی، اس کے نتیجے میں بلوچستان کی پہلی حکومت تشکیل دی گئی، باقی جو جمہوری حکومتیں آئیں انہوں نے مرہم رکھنے کے بجائے ہمیشہ بلوچستان کے زخموں کو کھرچنے کی کوشش کی۔
ہم ان کو سمجھاتے رہے نہ کریں بلوچستان کا نوجوان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، اور اب جو نوجوان اپنے خاندان کی رضا کے بغیر پہاڑوں پر جاتا ہے تو وہ میری بات کہاں سُنےگا، پہاڑوں پر جانے والا نوجوان اب کسی اور سیاسی شخص کی بات کس طرح سُنےگا، بات ہمارے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔
75 سالوں سے بلوچستان کو ایک کالونی کے طور پر چلایا جا رہا ہے، پاکستان کی ریاست کو بھی بلوچستان کے لوگوں سے دلچسپی نہیں ہے، ریاست کو بلوچستان کے وسائل، سوئی گیس، ریکوڈک اور اس کے ساحل سے دلچسپی ہے، بلوچستان کے ساحل کو بنیاد بنا کر سی پیک لائے، اس سے بلوچستان کو کیا فائدہ ہوا؟