پاکستان میں بیٹری انرجی اسٹوریج سسٹمز (بی ای ایس ایس) کو اپنانے میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جو ملکی توانائی کے منظرنامے کو تبدیل کرنے والا ہے، یہ نظام کو زیادہ غیر مرکزی اور صارف مرکوز بنانے میں مدد دے گا، حالاں کہ یہ موجودہ گرڈ انفرا اسٹرکچر کے لیے بڑے چیلنجز بھی پیدا کرے گا۔ یہ بات انسٹیٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسز (آئی ای ای ایف اے) کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے، جس کا عنوان ہے: ’بیٹری اسٹوریج اور پاکستان کے بجلی کے گرڈ کا مستقبل‘۔
رپورٹ کے مطابق، بی ای ایس ایس کو اپنانے کی تحریک آف گرڈ اور آن گرڈ دونوں قسم کی سولر فوٹووولٹائک (پی وی) تنصیبات سے پیدا ہوئی ہے، مالی سال 2019 سے مالی سال 2024 کے درمیان پاکستان نے 27.6 گیگاواٹ سولر پی وی ماڈیولز درآمد کیے، جب کہ مالی سال 2025 کے پہلے نصف میں مزید 5.2 گیگاواٹ درآمد کیے گئے۔تاہم اندازہ ہے کہ ملک بھر میں درآمد شدہ مجموعی صلاحیت کا صرف نصف حصہ نصب کیا گیا ہے، اور کم از کم 11.5 گیگاواٹ کی صلاحیت آف گرڈ موجود ہے، رپورٹ کے مطابق ’یہ ممکن نہیں کہ تمام روف ٹاپ اور کیپٹیو سولر صارفین بیٹری اسٹوریج سسٹمز کو اپنائیں کیوں کہ اس کی ابتدائی لاگت بہت زیادہ ہے‘۔
اگر موجودہ نیٹ میٹرنگ کی پوری صلاحیت کو مساوی سائز کے بیٹری اسٹوریج سسٹمز سے جوڑ دیا جائے تو سالانہ بجلی کی طلب میں 1.5 ٹیراواٹ گھنٹے (ٹی ڈبلیو ایچ) یا ملک کی مجموعی طلب کا 1.1 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔اسی طرح، تجارتی اداروں (جیسے دفاتر جو صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کام کرتے ہیں) کو رات کے وقت بیٹری اسٹوریج کی ضرورت نہیں ہوتی، اگر ہم ایک محتاط اندازہ لگائیں کہ درآمد شدہ سولر پینل کی پیدا کردہ صرف 25 فیصد توانائی کو اسٹور کیا جائے، تو سالانہ گرڈ پر بجلی کی طلب میں 11.5 ٹیراواٹ گھنٹے، یعنی پاکستان کی کل طلب کا 8.4 فیصد کمی ممکن ہے۔
توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور تقسیم شدہ توانائی وسائل (ڈی ای آر) جیسے روف ٹاپ سولر پی وی سسٹمز اور بی ای ایس ایس کی لاگت میں کمی کے امتزاج نے صارفین کو غیر مرکزی توانائی کے حل اپنانے کی ترغیب دی ہے، جس سے گرڈ پر انحصار اور توانائی لاگت میں کمی آ رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 2024 میں تخمینی طور پر 1.25 گیگاواٹ گھنٹے لیتھیم آئن بیٹری پیکس درآمد کیے، اور 2025 کے ابتدائی 2 ماہ میں مزید 400 میگاواٹ گھنٹے درآمد کیے، جو مستقبل میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔
پاکستان میں بیٹری اسٹوریج کو اپنانے کے رجحان کی پشت پر چین سے درآمد شدہ لیتھیم آئن بیٹریز ہیں، جو بی ای ایس ایس ٹیکنالوجی اور پیداوار میں عالمی رہنما ہے۔چین کی وافر صاف توانائی ٹیکنالوجی پیداوار کی صلاحیت مزید وسعت اختیار کرتی جا رہی ہے، جو قیمتوں میں مزید کمی کا باعث بن رہی ہے۔بلوم برگ نیو انرجی فنانس (بی این ای ایف) کے مطابق 2025 میں بیٹریز کی لاگت سو ڈالر فی میگاواٹ گھنٹہ کی سطح عبور کر جائے گی، جب کہ ہوا اور شمسی توانائی کی پیداواری لاگت بھی کم ہونے کی توقع ہے۔رپورٹ کے مطابق بی این ای ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 2035 تک بیٹری اسٹوریج کے لیے عالمی لیولائزڈ لاگت برائے بجلی (ایل سی او ای) تقریباً 50 فیصد کم ہو جائے گی، اور اسٹوریج کی لاگت 53 ڈالر فی ایم ڈبلیو ایچ تک آ جائے گی۔
اگرچہ پاکستان میں سولر پی وی ماڈیولز کی قیمتوں میں مسلسل کمی آئی ہے، جو چین میں اقتصادی بہتری کی عکاسی کرتی ہے، لیکن بی ای ایس ایس کے لیے ایسا نہیں ہو سکا، کیوں کہ اس پر بھاری ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی نافذ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں لیتھیم آئن بیٹری پیکس کی اوسط قیمت 230 ڈالر سے لے کر 360 ڈالر کے ڈبلیو ایچ تک ہے، اس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ مجموعی سطح پر گرڈ سے بجلی کی کم طلب نے حکومت کو مالی نقصان اور دیگر صارفین پر اضافی بوجھ کا سامنا کروایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں سولر پی وی سسٹمز کی تیز رفتاری سے اپنائے جانے کی وجہ سے مرکزی گرڈ کی بجلی پیداوار پر اثر پڑا ہے، جیسے جیسے صارفین نیٹ میٹرنگ اور خود بجلی پیدا کرنے کے طریقوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں، قومی گرڈ سے مجموعی بجلی کی طلب میں کمی آ رہی ہے۔تاہم طویل المدتی معاہدوں کی وجہ سے، جب صارفین گرڈ سے ہٹتے ہیں تو باقی صارفین پر فکسڈ چارجز اور کپیسٹی پیمنٹس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔بی ای ایس ایس اپنانے کا زیادہ براہ راست اندازہ لیتھیم آئن بیٹری اسٹوریج کی درآمد سے لگایا جا سکتا ہے، آئ ای ای ایف اے کے تجزیے کے مطابق، 2024 میں پاکستان نے تقریباً 1.25 گیگاواٹ گھنٹے لیتھیم آئن بیٹری اسٹوریج پیکس درآمد کیے۔
رپورٹ کے مطابق یہ مقدار اس سال کی 25.6 گیگاواٹ کی سالانہ زیادہ سے زیادہ طلب کا تقریباً 4.7 فیصد بنتی ہے، اگر روزانہ چارجنگ اور ڈس چارجنگ کا چکر فرض کریں، تو مکمل 1.25 گیگاواٹ گھنٹے بیٹری اسٹوریج کی تنصیب سالانہ گرڈ سے 438 گیگاواٹ گھنٹے توانائی کی طلب کم کر سکتی ہے۔