اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت نے خبردار کیا ہے کہ 2005 سے 2021 کے درمیان دنیا بھر میں زرعی نظام سے وابستہ نوجوانوں کی تعداد میں 10 فیصد کمی ہوئی ہے جو عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار کے مستقبل کے لیے ایک تشویشناک اشارہ ہے۔
ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق زرعی زمین محض خوراک کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی خطوں میں بڑھاپے میں سماجی تحفظ کا آخری سہارا بھی سمجھی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بزرگ کسان اپنی زمین چھوڑنے سے انکاری ہوتے ہیں، اس طرزِ عمل نے نئی نسل کے لیے زمین، وسائل اور زرعی پالیسی سازی تک رسائی کو محدود کر دیا ہے۔
زمین کے بغیر نوجوانوں کو زرعی پیداوار کے میدان میں قدم جمانے کے لیے وسائل، تربیت اور مواقع تک رسائی نہایت دشوار ہو گئی ہے، نوجوان نہ صرف مستقبل کے زرعی پیداکار بلکہ صارف، سروس فراہم کنندہ اور تبدیلی کے محرک بھی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 تا 24 سال کی عمر کے قریباً 1.3 ارب نوجوانوں میں سے 46 فیصد دیہات میں رہتے ہیں، ان میں سے 85 فیصد کا تعلق کم اور متوسط آمدنی والے ممالک سے ہے، ان ممالک میں زرعی شعبے سے وابستہ نوجوانوں کی شرح 44 فیصد ہے، لیکن ان میں سے 20 فیصد سے زائد رسمی تعلیم، تربیت یا روزگار سے محروم ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی صلاحیتیں ضائع ہو رہی ہیں۔
یہ بھی تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اگر ان نوجوانوں کو باعزت روزگار دیا جائے تو عالمی جی ڈی پی میں 1.5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ممکن ہے، جس میں سے 670 ارب ڈالر صرف زرعی غذائی شعبے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل کو ڈونگ یو کے مطابق نوجوان عالمی معیشت میں تبدیلی کے اہم محرک بن سکتے ہیں، لیکن ان کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں، اس وقت 395 ملین نوجوان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں موسمیاتی تبدیلی کے باعث زرعی پیداوار کو خطرات لاحق ہیں۔
اس کے علاوہ زرعی شعبے سے وابستہ 91 فیصد نوجوان خواتین اور 83 فیصد نوجوان مرد ایسے کاموں سے منسلک ہیں جو قلیل اجرت والے اور غیر محفوظ کام ہیں، نوجوانوں کو زرعی شعبے میں باعزت روزگار دینے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں مہارت، تربیت، مالی سہولیات اور زمین تک رسائی فراہم کی جائے۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ سماجی اور مالیاتی سرمایہ کاری کو بڑھایا جائے، بینکنگ اور قرضہ جاتی نظام نوجوانوں کے لیے قابل رسائی بنایا جائے، پالیسی سازی میں نوجوانوں کی مؤثر اور بامعنی شرکت یقینی بنائی جائے، صرف رسمی نمائندگی نہیں، شراکتی انجمنوں اور تنظیموں کے ذریعے فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی آواز شامل کی جائے۔