آئی ایم ایف معاہدے کے باوجود ریٹنگ ایجنسیز کے خدشات
پاکستان کو رواں مالی سال میں 25 ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کرنا ہے، موڈیز اور فچ
کراچی(شوریٰ نیوز) آئی ایم ایف معاہدے کے باوجود ریٹنگ ایجنسیز کے خدشات ،پاکستان کو رواں مالی سال میں 25 ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کرنا ہے،دنیا کی دو بڑی ریٹنگ ایجنسیز نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو اس سے نمایاں طور پر زیادہ فنڈنگ کی ضرورت ہوگی جو اسے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے حاصل ہوگی تاکہ وہ قرض کی ادائیگی اور معاشی بحالی کر سکے۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق موڈیز انویسٹر سروس اور فچ ریٹنگز نے یہ تنبیہ جاری کی، جو دنیا کی 3 میں سے 2 بڑی ریٹنگ ایجنسیاں ہیں، جو امریکی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن سے منظور شدہ ہیں۔دونوں ایجنسیز نے نوٹ کیا کہ پاکستان کو رواں مالی سال میں 25 ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کرنا ہے، جس میں سود اور قرض کی اقساط بھی شامل ہیں، موڈیز کے مطابق یہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر سے 7 گنا زیادہ رقم ہے۔ڈائریکٹر فچ برائے ایشیا اینڈ پیسیفک کرس جانس کرسٹینز نے بتایا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ ہفتے جو 3 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا، یہ رقم اس سے کافی زیادہ ہے، اور اس پروگرام کی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ سے منظوری بھی ہونا ہے، پاکستان کو قرض کی ادائیگی اور معاشی بحالی کے لیے اس سے زیادہ رقم کی ضرورت ہوگی۔ آئی ایم ایف نے ممکنہ طور پر ایسی فنانسنگ کے حوالے سے یقین دہانی طلب کی ہوگی لیکن خدشہ ہے کہ یہ ناکافی ثابت ہوسکتی ہیں، خاص طور پر اگر جاری کھاتہ (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارہ دوبارہ بڑھتا ہے۔بلومبرگ نے ان دو اداروں کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ آئی ایم ایف پروگرام نے منڈیوں میں مثبت لہر بھیجی ہے، پیر کو اسٹاک ایکسچینج 15 سال بعد سب سے زیادہ بڑھا اور روپے کی قدر میں بھی بہترین مضبوطی جاری ہے۔سنگاپور میں موڈیز کے تجزیہ کار گریس لِم نے بتایا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف معاہدے کے لیے ٹیکسز میں اضافہ کیا اور شرح سود بڑھا کر تاریخی بلند سطح پر کردی جبکہ اخراجات میں کمی بھی کری، یہ بات غیر یقینی ہے کہ پاکستانی حکومت آئی ایم ایف سے 9 مہینے کے اسٹینڈ بائے ارینجمنٹ کے تحت 3 ارب ڈالر حاصل کر لے گی۔ اصلاحات کو مسلسل نافذ کرنے کے لیے حکومت کے عزم کا امتحان اس وقت لیا جائے گا جب وہ اکتوبر تک ہونے والے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، پاکستان نے اس سے قبل اگست میں 1.1 ارب ڈالر حاصل کیے تھے، تاہم بعد ازاں قرض دہندہ نے فنڈز جاری نہیں کیے تھے