وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ کوئی بھی دوطرفہ معاہدہ منسوخ کرنے کا اب تک کوئی باقاعدہ فیصلہ نہیں کیا گیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے کہا تھاکہ شملہ معاہدہ فارغ ہوگیا، کنٹرول لائن کو اب سیز فائر لائن سمجھا جائے، سیز فائر لائن اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی حیثیت پر بات کرنا ہوگی، ہم واپس 1948 والی پوزیشن پر آگئے ہیں۔دفتر خارجہ کے عہدیدار نے آج ڈان ڈیجیٹل کو بتایا کہ ’ بھارت کے ساتھ کسی بھی دوطرفہ معاہدے کو منسوخ کرنے کا اب تک کوئی باقاعدہ فیصلہ نہیں کیا گیا۔’
قبل ازیں، آج جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف نے مقبوضہ کشمیر میں 22 اپریل کے پہلگام حملے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بگاڑ کے بعد بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے حوالے سے کہا کہ اس معاہدے میں کسی بھی فریق کے یکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ معاہدے کے بارے میں تمام فیصلے دونوں فریقین کے مشترکہ اتفاق رائے سے ہی کیے جا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ اگر ایسا ہے اور بھارت نے یہ (رویہ) اپنا لیا ہے تو شملہ معاہدہ دو فریقین کے درمیان ہے اور اس میں عالمی بینک یا کسی اور کی کوئی مداخلت یا سرپرستی نہیں ہے، لہذا لائن آف کنٹرول دوبارہ سیزفائر لائن بن جائے گی، جو کہ 1948 کے استصواب رائے کے وقت منظور کی گئی (اقوام متحدہ کی) قرارداد کے مطابق اس کی اصل حیثیت تھی۔’وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ’ بھارت کے اقدامات کی وجہ سے شملہ معاہدے کی حیثیت ختم ہو گئی،’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدے کی شرائط، جیسے کہ بھارت اور پاکستان کا دوطرفہ مسائل حل کرنا، اب قابل اطلاق نہیں رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ جنگ کے بعد مجموعی طور پر اس معاہدے کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔’واضح رہے کہ شملہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 کی جنگ کے بعد طے پایا تھا، جس پر ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی نے دستخط کیے تھے۔اس معاہدے میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ شرط بھی شامل تھی کہ کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر کوئی کارروائی نہیں کرے گا، دونوں ممالک کے درمیان تنازعات دوطرفہ طور پر حل کیے جائیں گے، اور سیزفائر لائن لائن آف کنٹرول (ایل او سی ) بن جائے گی۔
کشمیر کے حوالے سے، اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ ’ بنیادی مسائل اور تنازعات کی وجوہات جن کی وجہ سے پچھلے 25 سال سے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں، پرامن طریقے سے حل کی جائیں گی۔’ معاہدے میں دونوں ممالک کو دیرپا امن اور تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے طریق کار اور انتظامات پر تبادلہ خیال کرنے کا بھی پابند کیا گیا تھا۔
تاہم، پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت نے 2019 میں اس وقت شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی جب اس نے یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کر دیا تھا۔اس اقدام نے غیرکشمیریوں کو کشمیر میں ڈومیسائل حاصل کرنے اور جائیداد خریدنے کے قابل بنا دیا تھا تاکہ وادی کی مسلم اکثریتی آبادی کو تبدیل کیا جا سکے، اسے بھی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔
پہلگام حملے کے بعد، نئی دہلی نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے،دیگر اقدامات سمیت سندھ طاس معاہدے کو فوری طور پر معطل کر دیا تھا۔جوابی کارروائی کے طور پر، پاکستان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ تمام دوطرفہ معاہدوں کو، بشمول شملہ معاہدہ مگر انہی تک محدود نہیں، معطل کرنے کا حق استعمال کرے گا، پاکستان نے دیگر اقدامات کے ساتھ واہگہ بارڈر کی بندش اور نئی دہلی کے ساتھ تمام تجارت کی معطلی کا بھی اعلان کیا تھا۔