40 سالوں میں پشاور کا کوئی لیڈر خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ نہ بن سکا

0 99

گزشتہ چار دہائیوں میں پشاور سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی سیاستدان خیبر پختونخوا کی وزارت اعلیٰ کی کرسی نہ سنبھال سکا۔

رپورٹ کے مطابق 40 سال پہلے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ارباب جہانگیر خان خلیل آخری بار صوبے کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، جس وقت کے پی ‘سرحد’ کہلایا جاتا تھا۔

ارباب جہانگیر نے 7 اپریل 1985 سے لے کر مئی 1988 تک وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا، 1970 سے 2002 تک 32 سالہ سیاسی کرئیر میں وہ تین مرتبہ قومی اور چار مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوکر ناقابل شکست رہے۔

پشاور سے منتخب کوئی بھی نمائندہ پچھلے 10 سالوں میں وفاقی کابینہ میں بھی نہیں رہا، آخری بار 2008کے انتخابات کے بعد پشاور سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے نمائندے نے وفاقی کابینہ میں جگہ بنائی تھی۔

صوبائی دارالحکومت سے چند سیاستدان 80 کی دہائی کے وسط میں صوبے کے گورنر رہے لیکن اپنے شہر کو ترقی دینے میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے، اب حالیہ انتخابات میں جو 8 فروری کو ہونے جا رہے ہیں ان میں چند تجربہ کار سیاستدان پختونخواہ اسمبلی کے لیے پشاور کی 13 نشستوں سے قسمت آزمائیں گے۔

دوسری جانب دیگر اضلاع سے مزید تجربہ کار سیاسی رہنما انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے جیت کی امید لیے میدان میں موجود ہیں، گزشتہ چار دہائیوں میں مردان ڈویژن سے پختونخواہ کے سب سے زیادہ وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔

چارسدہ سے تعلق رکھنے والے قومی وطن پارٹی کے چئیرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ وہ واحد رہنما ہیں جو دو بار کے پی (اُس وقت کے سرحد) کے وزیراعلیٰ رہے۔

ان دنوں آفتاب احمد خان پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر ممبر تھے جنہوں نے بعد ازاں پارٹی سے راہیں جدا کرکے اپنی ایک الگ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی شیر پاؤ بنالی۔ وہ دسمبر 1988 سے اگست 1990 تک اور پھر اپریل 1994 سے نومبر 1996 تک صوبے کے وزیراعلیٰ رہے، انہوں نے بعد میں وزیرداخلہ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

اگست 1990 سے لے کر جولائی 1993 تک مردان کے میر افضل خان صوبے کے وزیراعلیٰ کے طور پر فائز رہے، ہری پور کے میر صابر شاہ اگست 1993 سے فروری 1994 تک سرحد (کے پی) کے وزیر اعلیٰ رہے۔

1997 کے انتخابات کے بعد ایبٹ آباد سے منتخب ہونے والے سردار مہتاب احمد خان فروری 1997 سے 12 اکتوبر 1999 تک سرحد کے وزیراعلیٰ رہے۔

صوبے میں 1999 سے 2002 تک گورنر راج قائم رہا، 2002 میں ہونے والے انتخابات میں چھ جماعتوں کے مذہبی اتحاد، متحدہ مجلس عمل نے اکثریت حاصل کی تو بنوں سے تعلق رکھنے والے اکرم خان دررانی وزیراعلیٰ بنے جو کہ 30 نومبر 2002 سے 11 اکتوبر 2007 تک وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔

2008 کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد مردان کے امیر حیدر ہوتی 31 مارچ 2008 کو کے پی کے وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے اور 20 مارچ 2013 تک اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔

نوشہرہ کے پرویز خٹک 2013 کے انتخابات میں کے پی سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزیراعلیٰ منتخب ہوئے جنہوں نے 31 مئی 2013 سے 6 جون 2018 تک اپنے فرائض انجام دیے۔

کوئی بھی جماعت پچھلی دو دہائیوں سے مستقل دو مرتبہ کامیابی حاصل نہیں کرپائی تھی جس روایت کو پی ٹی آئی نے 2018 میں دوسری مرتبہ انتخاب جیت کر ختم کیا لیکن اس مرتبہ پرویز خٹک کے بجائے پی ٹی آئی نے سوات کے محمود خان کو کے پی کا وزیراعلیٰ بنایا، انہوں نے 17 اگست 2018 سے جنوری 2023 تک کے پی حکومت کی سربراہی کی لیکن جنوری 2023 میں مدت مکمل نا ہونے کے باوجود انہوں نے کے پی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔

اسمبلی کے تحلیل ہوجانے کے بعد جنوری 2023 میں نگران حکومت، وزیر اعلیٰ اعظم خان کی سربراہی میں قائم کی گئی جو نومبر 2023 میں اپنے انتقال تک صوبے کے وزیراعلیٰ رہے، بعد ازاں نومبر 2023 میں ارشد حسین شاہ کو نگران وزیراعلیٰ کے پی بنا دیا گیا۔

پچھلی چار دہائیوں میں منتخب وزرائے اعلیٰ کے علاوہ جنرل فضل حق، مفتی محمد عباس، راجا سکندر زمان، انجینئر شمس الملک، جسٹس طارق پرویز اور جسٹس دوست محمد نے کے پی کے نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر انتخابات کرانے اور جیتنے والی سیاسی جماعت کو حکومت حوالے کرنے تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.