چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے ججز تعیناتی سے متعلق انیسویں ترمیم اٹھارھویں ترمیم کے سر پر پستول رکھ کر منظور کرائی گئی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ فی الحال عدلیہ اپنے لیے خود ہی جج مقرر کر رہی ہے ، پیپلز پارٹی کافی دیر سے اس پر تنقید کر رہی ہے، بار کونسل اور بانی پی ٹی آئی دور کے وزیرِ قانون بھی اس پر تنقید کر چکے ہیں، ججز سے متعلق ترمیم جیسے معاملے پر اتفاق رائے کسی بھی پارلیمنٹ کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔
ججز تعیناتی کے لیے اٹھارھویں ترمیم میں جو طریقہ کار طے کیا گیا تھا وہ واپس لایا جاتا ہے تو یہ اچھی شروعات ہوگی، مگر فیصلہ یک طرفہ نہیں بلکہ اتفاق رائے سے کرنا چاہیے۔
ججز سے متعلق ترمیم جیسے معاملے پر اتفاق رائے کسی بھی پارلیمنٹ کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کسی ایک فرد کا نہیں ہوسکتا، ایک بڑا فورم بنا ہے وہاں یہ فیصلہ کیا جاسکتاہے، اس پر پیپلزپارٹی کا مؤقف پارٹی کے منشور کے مطابق ہے، جو بھی فیصلے ہوں گےان کو جتنے اتفاق رائے سے کرسکتے ہیں اتنی ہی اس کو طاقت ملےگی۔
انہوں نے کہا کہ شہید بھٹو کو اب انصاف ملا، ان کی تیسری نسل کو انتظار کرنا پڑا کہ ججز انصاف دیں گے، عام پاکستانی کی کیا امید ہوسکتی ہے، اگر سیاسی انتقام کی روایت ختم کرنی ہے تو میثاقِ جمہوریت اور نیب اصلاحات کی طرف جانا ہوگا، نئے میثاقِ جمہوریت کے لیے بھی تیار ہیں۔
میثاق جمہوریت پر پیپلزپارٹی کی حکومت نے 90 فیصد عمل درآمد کیا، عدلیہ کے لیے بھی میثاق جمہوریت میں تجاویز دیں، وہ جماعت کےمنشور کا حصہ ہے، عدلیہ کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں تاکہ کیسز کا بوجھ ختم ہو اور عام آدمی کو فوری انصاف ملے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم سے متعلق کمیٹی میں ابھی تو صرف باتیں ہی ہورہی ہیں، آج کمیٹی میں پیپلزپارٹی کا مؤقف تھاکہ ہم چاہتے ہیں میثاق جمہوریت کی روح کو پھر سےقائم کریں، ہم مثبت طریقے سے اس عمل میں حصہ لینا چاہیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ سیاست میں ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ حکومت میں رہیں، ہم اگرحکومت میں ہوں اور مسائل کا حل نہ نکال سکیں توحکومت میں نہیں ہونا چاہیے، بہت خطرناک کہانیاں سامنے آرہی ہیں، وزیراعلیٰ کے پی اس پر اپنے گاؤں میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
گورنر راج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی گورنر راج کے حق میں ویسے تو نہیں ہوتی، اگر مجبور ہوکر گورنر راج لگایا جاتاہے تو ہم نے اٹھارویں ترمیم میں ایسی ترامیم کیں کہ صوبائی اسمبلی کے پاس یہ اختیار ہوکہ اگر گورنر راج لگ بھی جائے تو ہم ہمیشہ کے لیےگورنر راج نہیں لگنےدیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ قومی سلامتی کے معاملے پر بھی اتفاق رائے نہیں ہورہا، بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے وہ سب کے سامنےہیں، خیبرپختونخوا کےحالات اس سے بھی زیادہ برے ہیں۔
چئیرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اس صورتحال کا مقابلہ صوبائی اور وفاقی حکومت کو مل کر کرنا ہے، پہلی دفعہ نظرآرہاہےکہ نہ صرف قومی سلامتی کا سوال ہے بلکہ عوام کے لیے امن قائم کرنا خطرے میں ہے، پہلی دفعہ ہےکہ اس معاملے پربھی سیاست کھیلی جارہی ہے اور اتفاق رائے نہیں ہورہا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ملک کی سیاسی صورتحال سے ہر پاکستانی مایوس ہے، کوئی شہری اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہماری سیاست ٹوٹ چکی ہے۔
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ پارلیمان کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے، قانون سازی کرنی چاہیے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنی چاہیے، ہم جب یہاں پہنچتےہیں یا عام آدمی ٹی وی پر دیکھتا ہےتو اسے نظر آتا ہے کہ نظام نہیں چل رہا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو نیب کے لیے ایک مؤقف اور حکومت میں آتے ہیں تو دوسرا مؤقف ہوتا ہے، اگرکرپشن کا مقابلہ کرنا ہے تو نیب ریفارمز کے نظام کو فالو کرنا پڑےگا۔
آزاد صحافت بھی ضروری ہے اور ذمے دار صحافت بھی ضروری ہے، منتخب نمائندے جلسوں میں میڈیا کو گالیاں دیں گے تو ان سےکیا توقع رکھیں، میڈیا کا بھی کوئی معیار ہونا چاہیےکہ ہر جھوٹ نہ چلے، اگر کوئی غلط خبر چھپی ہے تو اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔