غزہ میں حاملہ خواتین کے ٹکڑے کرنے، بچوں کے سروں پر گولیاں مارنے کا انکشاف
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حاملہ خواتین کے ٹکڑے کرنے اور بچوں کے سروں پرگولیاں مارنے کا انکشاف ہوا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد امریکی سرجن ڈاکٹر فیروز سدھوا کی اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں بچوں کے سروں میں گولی مارنے اور حاملہ خواتین کے ٹکڑے کر دینے کے انکشافات نے اقوام متحدہ کو سکتے میں ڈال کر رکھ دیا۔
رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی ٹراما سرجن ڈاکٹر فیروز سدھوا جنہوں نے اس سال کے شروع میں غزہ کی پٹی کے یورپی ہسپتال میں رضاکارانہ خدمات انجام دیں انہوں نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بریفنگ کے دوران غزہ کی صورتحال کو آگ اور موت کی بارش سے تعبیر کیا۔
ڈاکٹر فیروز سدھوا نے کہا کہ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے واقعات کے دوران ہم نے اپنے اردگرد ہر جگہ گرنے والی آگ اور موت کی بارش کو دیکھا ہے اور خاص طور پر 18 مارچ کو اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے دوران ان ہولناکیوں ناقابل بیان ہیں۔
انہوں نے کہاکہ 18 مارچ کو انہوں نے اپنے کیریئر کا سب سے زیادہ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا واقعہ دیکھا جس میں ناصر میڈیکل کمپلیکس میں221 ٹراما کے مریض آئے جن میں 90مریض ہسپتال پہنچتے ہی جاں بحق ہو چکے تھے اورنصف شدید زخمی بچے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غزہ میں ہسپتال پناہ گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں کیونکہ وہاں اب صحت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے اور یہ ہی اب غزہ میں لوگوں کے لئے تحفظ کی جگہ باقی ہے، انہوں نے کہاکہ وہ ذاتی طور پر ایسے 13 بچوں کا علاج کر رہے تھے جن کے سروں پر گولیاں ماری گئیں۔
ڈاکٹر فیروز سدھوا نے کہا کہ ان بچوں نے اپنے مرحوم والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ مرنے کی خواہش کا اظہار کیا جس کا ان کے لئے سننا کسی تکلیف سے کم نہیں ہے، فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کونسل پر زور دیا کہ وہ فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرے، ہتھیاروں کی منتقلی کو روکے، طبی انخلا کی ضمانت دے اور انسانی بنیادوں پر پائیدار رسائی کو یقینی بنائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اب بھی یہ کونسل خاموش اور فوری اقدامات کرنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ رویہ فوری دیکھ بھال فراہم کرنے میں عالمی ناکامی اور ہمارے اجتماعی ضمیر کے خاتمے کا ثبوت بنے گا۔
انہوں نے کہاکہ میں نے غزہ میں اپنے پانچ ہفتوں کے دوران ایک بھی جنگجو کو نہیں دیکھا اور نہ ہی اس کا علاج کیا بلکہ میرے مریض 6 سال کی عمر کے تھے جن کے دل اور دماغوں میں گولیاں پیوست تھیں، وہ حاملہ خواتین تھیں جن کے دو ٹکڑے کئے گئے تھے۔
ڈاکٹر فیروز نے مزید کہا کہ میں نے جو دیکھا میں اس کو جھٹلا نہیں سکتا نہ ہی فراموش کرسکتا ہوں، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ طبی نظام ناکام نہیں ہوا ہے بلکہ اسے ایک مستقل اسرائیلی فوجی مہم کے ذریعے منظم طریقے سے ختم کر دیا گیا ہے جس میں جان بوجھ کر بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ 41 سالہ ڈاکٹرفیروز سدھوا 1982ء میں ہجرت کرنے والے پاکستانی والدین کے ہاں امریکہ میں پیدا ہوئے تھے، وہ مشہور پاکستانی ناول نگار بپسی سدھوا کے چھوٹے بھائی ہیں۔