صیہونی حکومت کی جانب سے حماس کے قبضے سے یرغمالیوں کو آزاد نہ کروانے پر صیہونی کابینہ میں اختلافات شدت اختیار کرگئے۔
صیہونی نیوز ویب سائٹ کے مطابق صیہونی وزیر دفاع نے وزیراعظم آفس پر دھاوا بول دیا اور صورتحال تقریباً ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔
صیہونی فوج میں غزہ جنگ کی حکمت عملی پر بھی شدید اختلافات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں 3 کمانڈروں نے کہا کہ حماس کو شکست بھی دیں اور یرغمالی زندہ بھی بچائیں، دونوں کام ایک ساتھ ممکن نہیں، یرغمالیوں کی تیز ترین واپسی کا راستہ سفارتی طریقہ کار ہے۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ صیہونی دارالحکومت تل ابیب میں ہزاروں افراد نے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی پر برہم مظاہرین نے نیتن یاہو کو شیطان چہرہ قرار دے دیا۔
متاثرہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو حکومت نے 7 اکتوبر کے روز ہمیں نظرانداز کیا اور اسکے بعد ہر روز ہمیں نظرانداز کر رہی ہے۔
مظاہرین نے صیہونی حکومت کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے بھی الزامات لگائے اور ساتھ ہی مظاہرین نے صیہونی حکومت میں نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتحال کو بدلنے یا اس کی مزمت کرنے کی طاقت ہمارے پاس ہے اس لیے اس حکومت کو اب واپس گھر جانا پڑے گا۔
صیہونی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے صیہونی حکومت کو معاہدہ کرنا پڑے گا: حماس
دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا کہنا ہےکہ صیہونی حکومت 100 روز بعد بھی بزور طاقت یرغمالیوں کو رہا کرانے میں ناکام رہا ہے، صیہونی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے صیہونی حکومت کو معاہدہ کرنا پڑے گا۔
حماس رہنما موسیٰ ابو مرزوق کا روسی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا صیہونی حکومت معاہدے کے ذریعے اپنے یرغمالیوں کو واپس لےگا یا ان کی لاشیں وصول کرے گا۔
واضح رہے 7 اکتوبر سے اب تک فلسطین شہدا کی تعداد 25 ہزار تک پہنچ گئی ہے، شہید ہونے والوں میں 70 فیصد خواتین شامل ہیں۔