علامہ ساجد نقوی کی قیادت میں ملک بھر سے فرقہ واریت کا تاثر زائل کرنے کیلئے 30سال کا سفر طے کیا، ناظر تقوی
شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری علامہ ناظر عباس تقوی نے ڈائریکٹر شوریٰ نیوز سید فدا حسنین شیرازی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمان امت واحدہ ہے فرقہ واریت اور تشدد کے حوالے سے پاکستان جن سنگین ترین حالات سے گزرا ہے اُس میں فرقہ وارانہ فسادات کروا کر پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ اس تمام تر صورتحال میں بنیادی طور پر ہماری پوری کوشش رہی کہ ہم عام سُنی کو فرقہ واریت سے دور رکھیں اور فرقہ پرست یا تکفیری گروہ (جس نے پورے پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے رکھی تھی) کیجانب سے دیئے گئے تاثر کو زائل کریں کیونکہ اس دوران دہشتگردی کو عروج حاصل ہو رہا تھا۔
کراچی سے گلگت بلتستان تک شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ جاری تھی کبھی خودکش حملے تو کبھی بم دھماکے ہو رہے تھے ان تمام تر معاملات کے باوجود ہم اسے فرقوں کی لڑائی نہ سمجھتے تھے اور نہ اب سمجھتے ہیں یہ خالصتاً دہشتگردی کا مسئلہ تھا اور یہ وہ دہشتگردی تھی جسے فرقہ واریت کا رنگ دے کر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ہم نے عملی طور پر مختلف مکاتب فکر کے مدارس میں جاکر عوام الناس کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ یہ فرقہ واریت نہیں دہشتگردی ہے جسے ایک سازش کے تحت فرقہ واریت کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
متحدہ مجلس عمل یا ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارمز سے جب عوام تمام مسالک کے علماء کو ایک جگہ دیکھتے تو اُنہیں یہ سمجھنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا کہ پاکستان میں قطعاً کوئی فرقہ واریت نہیں ہے بلکہ ایک خاص لائن پر چلنے والے دہشتگرد لوگ ہیں جو کسی خاص ایجنڈہ کے تحت پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
قائدملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی کی قیادت میں ملک بھر سے فرقہ واریت کا تاثر زائل کرنے کیلئے ہم نے 30سال کا سفر طے کیا ۔علامہ ساجد علی نقوی کی قیادت میں ہم نے اُس فرقہ پرست ٹولہ کو نکال کر ایک طرف کھڑا کیا اور ہر ایک کے سامنے ایکسپوز کر دیا جن کو اب کوئی بھی مسلک اون کرنے کو تیار نہیں۔الحمدللہ آج ہم اس مقام پر پہنچے ہیں کہ پوری دنیا کے اندر پاکستان کے حوالے سے یہ تاثر زائل ہو چکا ہے کہ ہمارے ملک میں فرقہ واریت کی فضا موجود ہے۔
اُس زمانہ کی اگر بات کریں جب فرقہ واریت کو پھیلانے کی کوشش کی جا رہی تھی تو اُس وقت جماعت اسلامی ، جے یو اٗئی(ف) ،جمیعت علماء پاکستان، مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان اور دیگر اہم مذہبی جماعتوں کے ساتھ قائد محترم علامہ سید ساجد علی نقوی بھی اُن کے درمیان بیٹھتے تھے کیونکہ یہ اُس وقت بہت ضروری ہو چکا تھا اور اس سے اُمت واحدہ کا ایک اہم ترین پیغام عوام الناس کو ملا۔
اتحاد بین المومنین کے حوالے سے کئے گئے ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ اتحاد بین المومنین کے حوالے سے ایک بات یہاں کرتا جائوں کہ ہم (مومنین) تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں ایک ہی قبیلہ کے لوگ ہیں ہماری بہنیں، بیٹیاں ایک دوسرے کے گھروں میں موجود ہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں مومنین کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے بھی ایک سازش رچائی گئی۔ تنظیمیں کم یا زیادہ ہونے سے مسائل جنم نہیں لیتے ہم دنیا بھر میں دیکھتے ہیں کہ ہر ملک کے اندر متعدد شیعہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں مثلاً ایران کے اندر چلے جائیں ، عراق کے اندر چلے جائیں، لبنان میں چلے جائیں غرضیکہ بھارت کے اندر بہت سی تنظیمیں اور گروہ موجود ہیں یہاں مسئلہ تنظیموں کا نہیں بلکہ اخلاقیات کا ہے آپ اپنے نظریات پر رہیں لیکن اخلاقیات کے دائرے میں رہیں۔
کسی کی توہین کرنا ،کسی کی اہانت کرنا ،کسی کی پگڑی اُچھالنا، کسی کو گرا کر خود کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرنا یہ ہماری کمزوری ہے اصل مسئلہ پاکستان میں جو مومنین کے درمیان پایا جاتا ہے وہ اخلاقی کمزوری ہے۔ مومنین کے درمیان مسائل ہمارے غیرمتوازن رویوں،عدم برداشت اور اخلاقی کمزوریوں سے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمیں تحمل، بردباری اور برداشت کا پیغام پوری ملت تک پہنچانا چاہیے۔ اگر میں اپنی ذات کی بات کروں تو میں نے تقریباً تمام شیعہ جماعتوں کیساتھ پروگرامز میں شرکت کی اور میرے تمام تنظیموں کے ساتھ رابطے ہیں حالانکہ میری اپنی پہچان ہے، میری اپنی جماعت ہے ، میں اپنی شناخت رکھتا ہوں اور قائدملت کی قیادت میں کام کرنے کو ترجیح دیتاہوں۔ہمیں چاہیے کہ قومی مسائل کے اندر تمام تر معاملات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اخلاقیات کا مظاہرہ کریں اور ایک دوسرے کیساتھ کھڑے ہوں۔مومنین کے درمیان تفریق کے خاتمہ کیلئے عملی طور پر میں نے کراچی کے اندر اقدامات اُٹھائے اُس وقت مجھے بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب امام حسن عسکری علیہ السلام کے روضہ پر حملہ ہوا شیعہ علماء کونسل پاکستان سمیت (میں اُس وقت کراچی کا صدر تھا) تمام جماعتوں نے ایک ہی دن کراچی پریس کلب میں الگ الگ پریس کانفرنسز کا اہتمام کیا۔ جب کراچی پریس کلب میں کانفرنسز جاری تھیں اور کبھی ایک تنظیم پریس کانفرنس کر کے باہر نکلتی تو کبھی دوسری تو ایک صحافی(جو کہ سنی العقیدہ تھا)کے سوال نے مجھے چونکا دیا جس کا کہنا تھا کہ جب آپ تمام تنظیموں کا مسئلہ ایک ہے اور آپ لوگ بات بھی ایک ہی کر رہے ہو تو پریس کانفرنسز الگ الگ کیوں کر رہے ہیں حالانکہ ہم میڈیا والے جب اخبارات میں آپ لوگوں کی خبر شائع کریں گے تو تمام پریس کانفرنسز کو یکجا کر کے ایک خبر بنائیں گے اور آپ تمام تنظیموں کی خبر ہی شائع ہوگی۔
یہ بات مجھے اتنی دل کو لگی کہ اُس دن میں نے تہیہ کر لیا کہ جس قدر ممکن ہوسکا مشترکہ معاملات میں مومنین کو یکجا رکھوں گا اس میں ، میں نے کامیابی بھی حاصل کی جہاں تک ہوسکا کہ ہم اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں تو ہم وہاں ایک دوسرے کے ساتھ احترام کے ساتھ بیٹھے ۔میں نے دوستوں کو سمجھایا کہ ہمارے نظریات الگ ہیں میرا تشخص شیعہ علما؍ کونسل پاکستان ہے میرے قائد علامہ سید ساجد علی نقوی ہیں آپ کی اپنی شناخت ہے ہم اپنی شناختوں کے ساتھ ایک ساتھ بیٹھ کر مشترکہ مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ اب کراچی میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو ہم ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں اب ہمارے اندر ایک اعتماد کی فضا قائم ہو چکی ہے۔اب جب کراچی کے لوگوں کو بلایا جاتا ہے تو تمام لوگ بلاتفریق نکلتے ہیں اور ہم آواز ہو کر اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرتے ہیں۔اب تو اکثر ہماری پریس کانفرنس بھی اکٹھی ہوتی ہے۔
عزاداری سید الشہدا علیہ السلام کے حوالے سے کئے گئے ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ عزاداری امام حسین علیہ السلام کسی تنظیم یا جماعت کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے اندر عزاداری سیدالشہداء علیہ السلام ہماری قوت اور طاقت کا مظہر ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستانی تشیع کا ایک مقام ہے جس سے ہماری تعداد واضح ہوتی ہے ۔رہی بات عزاداری سید الشہداء علیہ السلام کو روکنے کی کوشش تو یہ کام تو مدتوں سے جاری ہے لیکن ماتم ، مجلس اور جلوس ہائے عزا کو نہیں روکا جاسکتا کیونکہ عزاداری برپا کرنا ہمارا آئینی حق ہے اور ہمیں آئینی حق سے محروم کرنے والا مجرم ہے۔
پاکستان میں مسلمانوں کے مسالک میں تشیع ایک مسلمہ فرقہ ہے ۔بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بنیادی نکات میں یہ بات شامل تھی کہ ’’ہر قوم و ملت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہوگی‘‘حتی کہ اقلیتوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائیگا ۔ پاکستان میں تشیع اقلیت تو ہر گز نہیں ہیں ہم پاکستان کی دوسری بڑی طاقت ہیں ۔ہمیں دیوار سے لگا کر مذہبی رسومات سے روکنا کسی خام خیالی ہی ہوسکتی ہے ۔ تشیع گروہ یا کوئی سیاسی پارٹی تو نہیں بلکہ ایک کمیونٹی ہے جو 14 سوسال سے چلی آ رہی ہے بنوامیہ ، بنو عباس اور بڑے بڑے ادوار کا سامنا کیا لیکن تشیع کہیں کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ دن بدن اضافہ ہوا ۔پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کو تو ہتھکنڈوں کے ذریعے دیوار سے لگایا جاسکتا ہے لیکن تشیع کو ہرگز نہیں ۔ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ صدی تشیع کے افتخار کی صدی ہےپوری دنیا کے لوگوں نے تشیع کو قبول کر لیا اوراس وقت تو تشیع دنیا بھر اپنے عروج کا سفر طے کر رہی ہے۔
اربعین واک کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ اربعین واک کے حوالے سے جو باتیں چل رہی ہیں وہ ہرگز قابل قبول نہیں اگر میں سندھ کی بات کروں تو سندھ میں مشی کرنے پر 80 ایف آئی آرز کاٹی گئیں تو احتجاج کے دوران میں نےسندھ حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب لوگ آپ کے قائد کی برسی کیلئے نکلتے ہیں میں جانتا ہوں اُن میں کن کن شہروں سے لوگ پیدل چل کر گڑھی خدا بخش میں بھٹو کی برسی میں پہنچ رہے ہوتے ہیں اگر تمہارے لیڈر کی برسی میں لوگ پیدل چل کر مشی کر کے جائیں تو آئینی ہے اور ہم امام حسینؑ کیلئے نکلیں تو یہ غیر آئینی کیسے ہوسکتا ہے ۔یہ عقیدتی عمل ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا عقیدتی عمل کو روکنے کا عمل ایک ٹکرائو کا عمل ہے اور ٹکرائو کا عمل تباہی و بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔
زائرین کے مسائل کے حوالے سے کئے گئے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہماری کمیٹی موجود ہے قائد محترم کی جانب سے مظہر علوی صاحب بھی اُس کے ممبر رہے ہیں ۔ہمارے جنرل سیکرٹری شبیر نجفی صاحب بھی اُس کمیٹی کو دیکھ رہے ہیں زائرین کےمسائل کے حوالے سے لاہور میں ایک اہم پروگرام بھی ہوا۔ بلوچستان میں زائرین کے مسائل کے حل کیلئے ہم ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں جو لوگ رمدان بارڈر سے جا رہے ہیں اُن کیلئے قائد ملت بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔
قافلہ سالاروں کی طرف سے مسائل کے حل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مستند کارروان یا جو کارروان متعدد بار زیارات پر جاچکے اُن کا انتخاب کریں تاکہ زائرین کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قافلہ سالار مخلص ہوتا ہے لیکن اُس کے تجربات ناکام ہو جاتے ہیں جس سے زائرین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے زائرین شریر قسم کے قافلہ سالاروں سے اجتناب کریں ویزہ کا معاملہ چونکہ دوسرے ملک کی پالیسیز پر منحصر ہوتا ہے البتہ زائرین کو ویزہ کے حوالے سے درپیش مسائل کے حل کیلئے ہماری کوششیں جاری رہتی ہیں۔ جس قدر ممکن ہو ہم زائرین کی بہتری کیلئے اقدامات اُٹھاتے رہتے ہیں۔
مسنگ پرسنز کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ مسنگ پرسنز کا معاملہ تشیع کابنیادی مسئلہ ہے پاکستان میں آئین اور قانون موجود ہیں اگر ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کریں تو اُس کے اچھے اثرات مرتب ہونگے اگر کوئی ادارہ آئین کو پامال کر کے کوئی اقدام کریگا تو آئین کی پامالی کیساتھ ساتھ اداروں کا تشخص بھی خراب ہوتا ہے ۔ہمارا سادہ سا آئینی مطالبہ ہے کہ اگر ہمارے جوانوں نے کوئی ایسا اقدام کیا ہے جو واقعاً غیرآئینی اور غیر قانونی ہے تو اُس کیلئے بھی یہ طریقہ کار نہیں ہوتا کہ اُن کو اُٹھا کر غائب کر دیا جائے ۔اگر آپ کو انوسٹیگیشن کرنی بھی ہے تو ایک دو ماہ انوسٹیگیشن کریں لیکن معاملہ بھر بھی عدالت میں جائیگا اور فیصلہ عدالت ہی کریگی۔ جن پر آپ الزام لگا رہے ہیں اُن کو تو اپنی صفائی کا موقع فراہم کریں۔ اگر عدالت اُسے قصوروار ٹھہراتی ہے تو جو آئین کے مطابق جو مرضی سزا دیں لیکن آئینی تقاضوں کو ہر صورت پورا کریں جو اس ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔