کیش لیس معیشت کا فروغ ، کمیٹی نے سفارشات وزیراعظم کو پیش کردیں

0 12

پاکستان کی غیر رسمی معیشت کا تخمینہ 140 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ایسے میں وزیراعظم شہباز شریف ایک اہم معاشی فیصلے کے دہانے پر کھڑے ہیں یا تو وہ عوام کو کم ٹیکس کے ذریعے ڈیجیٹل ادائیگیوں کی ترغیب دیں، یا پھر نقد لین دین پر اضافی قیمتیں وصول کر کے کیش کے استعمال کی حوصلہ شکنی کریں۔ذرائع کے مطابق کیش لیس معیشت کے فروغ کے لیے حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی ماہرین کی کمیٹی نے اپنی سفارشات وزیراعظم کو پیش کر دی ہیں، کمیٹی نے ’’گاجر اور چھڑی‘‘ کی پالیسی پر مبنی تجاویز دی ہیں، جن میں رعایت اور جرمانے دونوں شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم ترغیبی پالیسی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو انھیں سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی میں واضح کمی کرنا ہو گی۔دوسری صورت میں نقد ادائیگی کرنے والے افراد کو حکومتی واجبات، ایندھن اور یوٹیلیٹی اشیا کی خریداری پر زیادہ ادائیگی کرنا پڑے گی۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب 10 جون کو بجٹ پیش کریں گے، جس میں حکومت کی ترجیحات اور نقد کے خلاف ممکنہ اقدامات کا اعلان متوقع ہے۔کمیٹی نے پہلی اہم تجویز میں ضلعی انتظامیہ کو اختیار دینے کی سفارش کی ہے کہ وہ تمام ریٹیل دکانوں پر RAAST QR کوڈ کی تنصیب کو یقینی بنائیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کریڈٹ کارڈ مشینیں صرف 50 ہزار ہیں جبکہ ریٹیل دکانوں کی تعداد 50 لاکھ ہے، اس لیے حل QR کوڈ میں ہے نہ کہ مہنگے کریڈٹ کارڈ سسٹم میں۔کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ڈیجیٹل ادائیگیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 18 فیصد سے گھٹا کر 5 فیصد کیا جائے اور ان ادائیگیوں پر تین سال تک ٹیکس آڈٹ سے استثنیٰ دیا جائے۔کمیٹی کی دوسری تجویز میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ نقد ادائیگیوں کو مہنگا کرے اس کے تحت حکومت سے متعلق واجبات کی نقد ادائیگی پر سرچارج لگایا جائے اور کیش آن ڈیلیوری پر کسی قسم کی سیلز ٹیکس چھوٹ نہ دی جائے۔ یہاں تک کہ پٹرول پر نقد ادائیگی کی صورت میں فی لیٹر تین روپے اضافی وصولی کی تجویز دی گئی ہے۔

کمیٹی نے زور دیا ہے کہ حکومت اپنی تمام ادائیگیاں خواہ وہ بی آئی ایس پی کے مستحقین کو ہوں یا ٹھیکیداروں کو ڈیجیٹل طریقے سے کرے۔کمیٹی نے ایف بی آر سے جب ٹیکس کمی کی تجویز پر بات کی تو اس نے موقف اپنایا کہ آئی ایم ایف مخالفت کرے گا تاہم جب کمیٹی نے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا ،ٹیلی کام کمپنیوں نے موجودہ ٹیکس پالیسیوں کو معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 4 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کو ایڈجسٹ ایبل بنایا جائے۔

مزید برآں 75 فیصد ایڈوانس ٹیکس اور غیر فائلرز کی سم بلاکنگ جیسی سزا دینے والی پالیسیاں بھی ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ ٹیلی کام انڈسٹری کا کہنا ہے کہ ٹیکس وصولی کے پیچیدہ نظام اور ہر ٹرانزیکشن پر ٹیکس کی کٹوتی سے ان کا انتظامی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انکم ٹیکس کو دوبارہ ایڈجسٹ ایبل کیا جائے تاکہ نقصانات کے باوجود کم از کم ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنی پڑے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.