صدیوں سے زندگی بانٹنے والا دریائےسندھ پانی کی بوند بوند کو ترس گیا ، ڈیلٹا میں پانی کی کمی شدت اختیار کرگئی، ریت ہی ریت اڑنے لگی۔
پانی کی کمی سے سندھ کے ساحلی علاقے شدید متاثر ہیں، بدین کے گاؤں مصری ملاح میں زیرِ زمین پانی کھارا ہوگیا اور وہاں کے مکین مضرِ صحت پانی استعمال کرنے پر مجبورہیں۔
گاؤں کی رہائشی خاتون جنت بی بی مویشیوں کے لیے بھی پانی نہ ملنے پر سخت پریشان ہے۔
جنت بی بی کا کہنا ہےکہ تین مہینے ہوگئے ہیں ہمارے پاس پینے کا پانی ہے ہی نہیں، مویشی ہمارے پیاسے مر رہے ہیں، ہم نے کنویں کھودے ہیں جن کا پانی کھارا ہے، اس سے ہم بھی پانی پی رہے ہیں اور مویشیوں کو بھی پلا رہے ہیں۔
بدین کے گاؤں مصری ملاح کی یہ خواتین پینے کے پانی کے حصول کے لیے زیرزمین کا کھارا اور مضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ بدین سمیت سندھ کے ساحلی علاقوں میں پانی کا بحران دن بہ دن شدت اختیار کرتا جارہا ہے جس کے اثرات خشک نہروں اور بنجر زمینوں کی صورت میں سامنے آئے ہیں اور اب ساحلی علاقوں کے مکینوں کو کھارا پانی پینا پڑ رہا ہے۔
ایک اور رہائشی صدیق ملاح کا کہنا تھا کہ چار مہینے ہوگئے ہیں پانی نہیں ہے، ہم نے کنواںکھودا ہے، اس سے پانی پی رہے ہیں، خراب پانی ہے جو پینے کے لائق نہیں ہے لیکن مجبوری میں پینا پڑ رہا ہے۔
مقامی آبی ماہرین کے مطابق دریائے سندھ میں پانی کی کمی اور سمندر کے آگے بڑھنے سے بدین کے ساحلی علاقوں میں نہ صرف ماحولیاتی نظام بلکہ انسانی زندگی شدید متاثر ہو ئی ہے۔بدین ڈسٹرکٹ کی تین لاکھ ایکڑ سے زائد زمین سمندر میں جاچکی ہے اور باقی زمین غیر آباد ہو رہی ہے۔
کوٹری بیراج پر پانی کی قلت بھی 30 فیصد تک جا پہنچی ہے، پانی کی آمد 4600 کیوسک اور اخراج محض 190 کیوسک رہ گیا، پانی کی کمی سے کپاس کی بوائی کا عمل بھی متاثر ہے، خریف میں گنے اور چاول کی فصلوں کو بھی نقصان کا اندیشہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کے آگے بڑھنے اور دریائے سندھ کے ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے 1991کے معاہدے کے تحت سندھ کو پانی کو دینا ہو گا تاکہ سندھ کے ساحلی علاقوں کو تباہی سے بچایا جا سکے۔