اسلام آباد(شوریٰ نیوز)سویلین کا کورٹ مارشل ،عدالتی کاروائی کا تحریری حکم نامہ جاری , وزیر اعظم سمیت اٹارنی جنرل، وزارت قانون، داخلہ، دفاع، تمام صوبائی چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کو نوٹسز جاری تفصیلات کے مطابقسپریم کورٹ آف پاکستان کی سات رکنی لارجر بنچ نے سویلین کے کورٹ مارشل سے متعلق دن کی عدالتی کاروائی کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ عدالت عظمی نے وزیر اعظم سمیت اٹارنی جنرل، وزارت قانون، داخلہ، دفاع و دیگر فریقین سمیت تمام صوبائی چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔عدالت عظمی نے اپنے حکم میں وفاقی حکومت کو 9 مئی کے واقعہ پر زیر حراست افراد کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے پوچھا ہے کہ بتایا جائے کہ کتنے وکلاء اور صحافی سول اور ملٹری حراست میں ہیں تفصیلات دی جائیں۔یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ بتایا جائے کہ زیر حراست افراد میں خواتین اور بچوں کی تعداد بھی بتائی جائے۔معاملہ کی آئندہ سماعت جمعہ 23 جون کو صبح ساڑھے نو بجے سپریم کورٹ میں ہو گی۔تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ قید میں موجود خواتین اوربچوں کی تفصیل جمع کروائی جائیں، بتایا جائے کتنے وکلا اور صحافی ملٹری اورسویلین حراست میں ہیں، فوجی اور سول اداروں کی زیرحراست افراد کی تفصیلات دی جائیں۔ اسی دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کردیا گیا ہے، درخواستوں میں تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے گئے۔تحریری حکمنامے کے مطابق وفاق ،چاروں صوبوں اوراٹارنی جنرل، وزارت داخلہ، وزارت دفاع، چیئر مین تحریک انصاف عمران خان کو نوٹس بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔اس سے قبل دن کی کارروائی میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی 9 مئی کو گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پْرتشدد مظاہروں کے دوران عسکری، سرکاری اور نجی تنصیبات پر حملہ کرنیوالوں کے مقدمات ملٹری کورٹس میں چلانے کیخلاف دائر درخواستوں کی ا?ج سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ مقرر کیا گیا تھا۔شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست کی سماعت سپریم کورٹ میں دوبارہ شروع ہوگئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق کے بینچ سے الگ ہونے کے بعد 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا تھا۔فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر دوبارہ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی خان نے کہا کہ کسی نے بینچ پر اعتراض اٹھانا ہے تو ابھی اٹھائے۔ جس پر لطیف کھوسہ اور اٹارنی جنرل نے کہا کہ بینچ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہماری درخواست پر کچھ اعتراضات لگائے گئے تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست میں کچھ سیاسی نوعیت کی استدعا موجود تھیں، ابھی ہم وہ سننا نہیں چاہتے ابھی فوکس فوجی عدالتیں ہیں۔شعیب شاہین نے استدعا کی کہ ہماری درخواست بھی ساتھ رکھ لیں، ہوسکتا ہے فوجی عدالتوں کے علاوہ دیگر استدعا ہم نہ مانگیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم آپس میں مشاورت کر کے دیکھیں گے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 245 نافذ ہونے کے بعد ہائی کورٹس کا 199 کا اختیار ختم ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ فوج طلبی کا وہ نوٹیفکیشن واپس ہوچکا ہے۔ لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کہا گیا 9 مئی کے ناقابل تردید شواہد ہیں۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے پوچھا کہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اس لئے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا؟۔ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ جی پریس ریلیز میں یہ ہی کہا گیا ہے۔ جس کے بعد لطیف کھوسہ نے پریس ریلیز پڑھ کر سنادی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں۔لطیف کھوسہ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا کہ ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، ملک کی تمام فوجی قیادت نے بیٹھ کر فیصلہ دے دیا ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا یہ دستاویز ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پریس ریلیز آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہے، فارمیشن کمانڈر نے کہہ دیا ناقابل تردید شواہد ہیں تو ایک کرنل اب ٹرائل میں کیا الگ فیصلہ دے گا؟۔لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ نہیں کہتا کہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو چھوڑ دیا جائے، کہیں بھی کسی بھی حملے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہئے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ سب بیانات میں ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا۔ جس پر لطیف کھوسہ نے انسداد دہشت گردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے بھی عدالت میں پڑھ کر سنائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا اے ٹی سی میں کسی ایف آئی آر کے تحت کیس تھا؟، جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جی مختلف ایف آئی آرز درج کی گئیں ہیں، جنہوں نے پریس کانفرنسز کیں وہ بری الزمہ ہوگئے، کور کمانڈر یا جناح ہاؤس حملے میں کسی اہلکار کو کوئی خراش نہیں آئی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایف آئی آر کے تحت کتنے لوگ گرفتار ہوئے؟۔ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پچاس لوگوں کو 10 مئی کے روز گرفتار کیا گیا، اسی رات 5 مختلف ایف آئی آر درج کی گئیں۔ جسٹس منصور نے سوال کیا کہ سارے ملک میں ایف آئی آر دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہوئیں؟، جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جی سارے مقدمات انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کئے گئے، کسی ایف آئی آر میں آرمی ایکٹ کا حوالہ نہیں۔جسٹس یحییٰ ا?فریدی نے ریمارکس دیئے کہ پرابلم یہ ہے کہ آپ نے درخواست کے ساتھ جو چیزیں لگائیں وہ مکمل نہیں۔ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں اور اعتزار احسن ملزم تو نہیں ہم 25 کروڑ عوام کی فکر میں آئے ہیں۔ جسٹس یحییٰ کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے کتنے لوگوں کو فوجی عدالتوں کے تحت ٹرائل کیلئے بھیجا گیا۔ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ کسی جگہ سے 10 کسی جگہ سے 20 ملزمان کو بھیجا گیا۔جسٹس یحییٰ ا?فریدی نے کہا کہ آپ عموعی نوعیت پر دلائل دے رہے ہیں، آپ نے صرف قانون کو چیلنج کیا اس پر تو عدالت پہلے فیصلہ دے چکی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا اے ٹی سی میں ملزمان کی ملٹری حوالگی سے پہلے کوئی بحث ہوئی۔ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ کئی جگہوں پر نہ ملزمان عدالت میں موجود تھے نہ ان کے وکیل۔ جسٹس منصور نے سوال کیا کہ تو کیا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ ایسے فیصلے کو چیلنج نہیں کرے گا؟۔ لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میرا کیس یہ ہے کہ پرائیویٹ لوگوں کا کیس ملٹری کورٹس میں نہیں چل سکتا۔جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ کیا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیس اے ٹی سی میں چل سکتا ہے؟۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی اے ٹی سی کورٹ میں چل سکتا ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ملٹری کورٹس کو تو حوالگی ان کے اپنے افراد کی ہوسکتی ہے، فوجی عدالتوں کو عام شہریوں کی حوالگی تو نہیں ہوسکتی؟۔ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہی تو ہمارا کیس ہے کہ ملٹری کورٹ سویلینز کا ٹرائل نہیں کرسکتیں۔جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا اے ٹی سی جج فیصلہ دے سکتا ہے کہ آرمی ایکٹ کا کیس بنتا ہے یا نہیں؟، سویلین کو ملٹری کورٹس میں بنیادی حقوق کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کا حق ہے، بنیادی حقوق کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی لایا جاسکتا ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ملزمان کو سیکشن 549 تھری کے تحت اے ٹی سی نے ملٹری حکام کے حوالے کیا۔ جسٹس منیب کا کہنا تھ اکہ معذرت مگر وزارت قانون کی ویب سائٹ پر 549 کی سب سیکشن تھری ہے ہی نہیں۔ جسٹس یحییٰ نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ کے تحت سزا کم ہے اور عام قانون میں سزا زیادہ ہے۔ جسٹس منصور نے کہا کہ وہ پوچھ رہے ہیں کہ آپ ادھر آنا چاہتے ہیں یا اْدھر جانا چاہتے ہیں، جس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔عدالت عظمیٰ نے آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کے ٹرائل پر فوری حکم امتناع کی لطیف کھوسہ کی استدعا مسترد کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹے آرڈر کی استدعا پر پہلے اٹارنی جنرل کا مؤقف سنیں گے، آپ کہتے ہیں ملٹری کورٹس کیخلاف اپیل کا حق نہیں ہوتا، آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹس کا فیصلہ پبلک نہیں ہوتا، وجوہات واضح نہیں ہوتیں۔سپریم کورٹ نے 9 مئی کے بعد تمام گرفتاریوں کی تفصیل طلب کرلی، ساتھ ہی اٹارنی جنرل سے خواتین، بچوں اور صحافیوں کی گرفتاریوں کی تفصیل بھی طلب کرلی۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ صحافی قید ہیں تو رہا ہونے چاہئیں، اٹارنی جنرل صاحب! اس وقت آفیشل میٹنگز کی جاسوسی ہورہی ہے، میٹنگز، ٹیلی فون گفتگو کی نگرانی ہورہی ہے، فلمیں بن رہی ہیں، ٹیپ اور ریکاڈنگز ہو رہی ہیں، آئین نے جو پرائیویسی کا حق دیا ہے وہ بھی محفوظ نہیں۔اس سے قبل سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر ا?ج صبح سماعت کا ا?غاز ہوا تو چیف جسٹس نے وکلاء کو دیکھ کر کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کچھ آبزرویشن دینا چاہتا ہوں، سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں خوشی کا اظہار تو کرنے دیں، قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ آپ خوشی کا اظہار باہر کرسکتے ہیں یہ کوئی سیاسی فورم نہیں، حلف کے مطابق میں آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا۔انہوں نے کہا کہ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے، اس قانون کے مطابق بینچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے، کل شام مجھے کاز لسٹ دیکھ کر تعجب ہوا، اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں فوجی زبان میں ہی بات کروں گا، 15 مارچ کو ازخود نوٹس پر نمبر 4 لگا جس بینچ کی صدارت میں کر رہا تھا، مجھے تعجب ہوا کہ ایک سرکلر جاری کر کے آرڈر کو نظر انداز کرنے کا کہا گیا، یہ ہے سپریم کورٹ کی وضاحت؟، بعد میں عدالتی حکم سے بھی میرا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے، میرے دوست بتائیں یہ کس قسم کا بینچ تھا؟۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے مزید کہا کہ میں نے 8 اپریل 2023ء کو ایک نوٹ لکھا، یہ نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو مجھ سے دریافت کیا کہ میں چیمبر ورک ہی کروں گا؟، میں بتاتا ہوں آج میں چیمبر ورک پر کیوں گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کیلئے مقرر بینچ سے خود کو علیحدہ کرلیا، انہوں نے کہا کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا اس بینچ کو بینچ نہیں مانتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد جسٹس سردار طارق نے بھی بینچ پر اعتراض اٹھادیا۔ دونوں ججز کے اعتراض کے بعد 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔بینچ کی تحلیل کے بعد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم کوئی راستہ نکالتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کسی فیصلے کو ماننے سے انکاری نہیں ایک پروسیجر کی بات کر رہا ہوں، ہمارے سامنے اس وقت چار درخواستیں موجود ہیں، سب سے پہلی درخواست عمران نیازی کی تھی۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ اس لئے نہیں آیا کہ اٹارنی جنرل نے وقت لیا تھا، ہم نے جو بھی کیا اپنے حلف کے مطابق کیا