یوکرین کے قدرتی وسائل سے متعلق امریکا اور یوکرین کے درمیان بالآخر معاہدہ طے پا گیا۔
واشنگٹن اور کیف نے یوکرین کے قدرتی وسائل سے متعلق معاہدے پر دستخط کر دیے۔کئی ماہ کے مذاکرات کےبعد کیے گئے اس معاہدے کے تحت یوکرین اپنی نادر معدنیات تک امریکا کو ترجیحی بنیادوں پرڈیل کیلئے رسائی دے گا۔
یوکرین کی اوّل نائب وزیراعظم یولیا سویریڈینکو نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے معدنیات معاہدے پر بدھ کو دستخط کردیے ہیں اور دعویٰ کیا کہ یوکرین فیصلہ کرے گا کہ کون سی معدنیات کہاں سے نکالنا ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نادر معدنیات کو نکالنے کا کام شروع کرنے کیلئے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے۔تاہم یوکرین سے اگر یہ معدنیات حاصل کرلی گئیں تو امریکا کا ان نادر معدنیات کیلئے چین اور روس پردرآمدی انحصار کم ہوجائےگا۔
یوکرین کے پاس دنیا بھر کے گریفائٹ کا 6 فیصد موجود ہے جبکہ یورپ میں لیتھیم، ٹائٹینیم اور یورینیم کاسب سے بڑا ذخیرہ بھی یوکرین ہی میں ہے۔یہی نہیں یہ ملک بیریلیئم کی بھی غیرمعمولی مقدار کا حامل ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق معاہدے کے تحت امریکا یوکرین سرمایہ کاری اور تعمیر نو فنڈ قائم کیا جائے گا۔نادر معدنیات، تیل اور گیس کے نئے لائسنس سے حاصل 50 فیصد ریونیو سے چلنے والے اس فنڈ کا انتطام امریکا اور یوکرین مل کر کریں گے۔یہ بھی کہ امریکا اس فنڈ میں براہ راست رقم اور فوجی امداد کے ذریعے شامل ہوگا۔
معاہدے کے تحت کم یاب معدنیات کی مستقبل میں فروخت سے حاصل آمدنی میں امریکا کو حصہ دیا جائےگا۔ اس طرح جنگ کے آغاز سے اب تک یوکرین کو دی گئی 175 ارب ڈالر امداد کی امریکا کو واپسی ممکن بنے گی۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ روس کو پیغام ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک ایسے امن عمل کیلیے پرعزم ہے جس کا محور آزاد، خودمختار اور خوشحال یوکرین ہو۔
واضح رہے کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا کی جانب سے فوجی امداد کے بدلے میں یوکرین اپنی نادر معدنیات تک امریکا کو رسائی دے گا۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی کے فروری میں دورہ واشنگٹن کا مقصد بھی اس ڈیل پر دستخط کرنا تھا تاہم اوول آفس میں صدر ٹرمپ سے سخت جملوں کے تبادلے کے بعد انہیں دورہ مختصر کرکے وطن واپس جانا پڑگیا تھا۔
صدر زیلنسکی نے معدنیات تک رسائی کے ذریعے امریکا کی جانب سے 5سو ارب ڈالر لینے کا مطالبہ اس وقت یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ امریکا نے یوکرین کو اس قدر فوجی امداد دی ہی نہیں اور یہ بھی کہ واشنگٹن کی جانب سے کوئی سکیورٹی گارنٹی بھی نہیں دی جارہی۔
تاہم امریکا کی جانب سے دباؤ بڑھنے پر صدر زیلنسکی نے بعد میں اس جانب پیشرفت کو سکیورٹی اور سلامتی کی یقین دہانیوں کی جانب قدم قرار دے دیا تھا۔
بلآخر پوپ فرانسس کی آخری رسومات کے موقع پر امریکا اور یوکرین کے صدور کی ملاقات نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ کوئی بھی ریاست یا ملک جس نے جنگ میں روس کی مدد کی ہے اسے یوکرین کی تعمیر نو میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکا نے یوکرین کی فوجی امداد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نادر معدنیات کے حصول سے جوڑ دیا ہے۔