غزہ میں مستقل جنگ بندی کیلئے 3 مراحل پر مشتمل امن منصوبے پر بات چیت، برطانوی اخبار

0 167

غزہ میں جنگ کو روکنے کے لیے ایک نئے منصوبے پر بات چیت اس توقع کے ساتھ کی جا رہی ہے مغربی کنارے اور غزہ کے رہنماؤں کو اکٹھا کرکے مستقل جنگ بندی کی جاسکے گی۔

یہ دعویٰ برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے ایک رپورٹ میں کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق غزہ پر وحشیانہ بمباری اور ہزاروں ہلاکتوں کے باوجود صیہونی حکومت کو کامیابی کے اشارے نہیں مل رہے اور وہ اب تک خود کو مزید ممکنہ حملوں سے محفوظ بنانے کا یقین حاصل نہیں کر سکا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ وحشیانہ بمباری میں ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت کے بعد صیہونی حکومت عالمی تنہائی کا شکار ہونے لگا ہے، برطانیہ جیسا اتحادی بھی اب صیہونی حکومت سے مستحکم جنگ بندی کا مطالبہ کرنے لگا ہے۔

برطانوی اخبار کا کہنا تھا کہ صیہونی حکومت عالمی تنہائی کے باوجود صرف امریکی تعاون کے بل بوتے پرغزہ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے، مگر غزہ کے انسانی بحران کے باعث اب امریکا کا صبر بھی ختم ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ صیہونی حکومت کے لیے غیرمشروط امریکی حمایت میں کمی کے اشارے ملنے لگے ہیں اور امریکا بھی صیہونی حکومت سے غزہ پر انتہائی شدت والے حملوں کے خاتمے کا پلان مانگنے لگا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ صیہونی حکومت صرف حماس کے ٹھکانوں پر ہی حملے کرے جبکہ 7 اکتوبر کے بعد صیہونی متحد ضرور ہوئے مگر اب اس اتحاد میں دراڑیں پڑتی نظر آرہی ہیں۔

یرغمالیوں کے اہلخانہ خود کو نظر انداز کیے جانے پر شاکی ہیں اور صیہونی حکومت عالمی دباؤ کے باوجود جنگ بندی اس لیے نہیں کر پارہا کہ اس کے پاس دوسرا کوئی پلان ہی نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صیہونی حکومت اب تک نہیں بتا سکا کہ وہ کیسے اس تنظیم کو ختم کرے گا، جس کے سیاسی و نظریاتی رابطے صرف غزہ تک محدود نہیں۔

اسی کو دیکھتے ہوئے ایک نیا امن منصوبہ سامنے آیا ہے جو 3 نکات پر مبنی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فلسطینی گروپس کی جانب سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی گئی ہے مگر اسے رسمی طور پر مسترد بھی نہیں کیا گیا۔

اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں 15 روزہ جنگ بندی کی جائے گی جس کے دوران صیہونی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔

دوسرے مرحلے میں غزہ اور مغربی کنارے پر حکمرانی کے لیے فلسطینی گروپس کو متحد کیا جائے گا اور تیسرے مرحلے میں حتمی جنگ بندی کی جائے گی۔

یہ منصوبہ مصر اور قطر کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.