زندگی میں ناکام ہونے کےبعدکامیاب ہونے والے معروف افراد

0 157

زندگی میں ہر ایک ہی کامیاب ہونے کا خواہشمند ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے بھرپور کوشش بھی کرتا ہے۔

مگر بیشتر افراد اپنے خواب یا مقصد میں ناکامی کے بعد ہمت ہار جاتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کے چند کامیاب ترین افراد کو آغاز میں بدترین ناکامیوں کا سامنا ہوا تھا؟

ہم ان کے نام اور کامیابی سے تو واقف ہوتے ہیں مگر اکثر ان کے زندگی کے سفر کو نظر انداز کردیتے ہیں جس کا آغاز ناکامی سے ہوا تھا۔

متعدد افراد ناکامی لفظ سے ہی خوفزدہ ہوتے ہیں اور فوری کامیابی چاہتے ہیں ، مگر ناکامی زندگی کا وہ تجربہ ہے جس کا سامنا لگ بھگ ہر ایک کو ہوتا ہے اور یہ ہمیشہ برا بھی نہیں ہوتا۔

درحقیقت کامیابی کا راستہ آسان نہیں بلکہ ناکامی سے آپ کو اپنی ترجیحات پر نظرثانی کا موقع ملتا ہے۔

تو ایسے ہی چند کامیاب ترین افراد کے بارے میں جانیں جن کو زندگی میں جدوجہد اور ناکامیوں کا سامنا تو ہوا مگر پھر وہ عروج پانے میں بھی کامیاب رہے۔

البرٹ آئن اسٹائن
البرٹ آئن اسٹائن کے نام سے کون واقف نہیں، چاہے سائنس سے دلچسپی ہو یا نہ ہو مگر اس سائنسدان کا نام تو ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے۔

انہیں اب دنیا کے چند بڑے دماغوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے مگر 4 سال کی عمر تک وہ بول بھی نہیں سکے تھے جبکہ 16 سال کی عمر میں سوئس اسکول کے داخلہ ٹیسٹ میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

یہاں تک کہ آئن اسٹائن کے والد اپنی موت تک یہی تصور کرتے رہے کہ ان کا بیٹا زندگی میں ناکام ہے ، وہ انشورنس سیلز مین کا کام بھی کرتے رہے مگر اس میں بھی ناکامی کا سامنا ہوا۔

مگر بتدریج وہ سائنس کے شعبے میں آگے بڑھنے لگے اور آج لوگ ان کی ناکامیوں کی بجائے کامیابیوں کو زیادہ جانتے ہیں۔

بل گیٹس
بل گیٹس دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں اور مائیکرو سافٹ کے شریک بانی ہیں۔

انہوں نے دنیا کو مائیکرو سافٹ ڈوز اور ونڈوز جیسے آپریٹنگ سسٹم دیے جبکہ ورڈ، ایکسل اور پاور پوائنٹ کی مقبولیت اس سے الگ ہے۔

مگر 17 سال کی عمر میں ان کی پہلی سافٹ ویئر کمپنی کو بری طرح ناکامی کا سامنا ہوا تھا۔

مگر اس ناکامی سے بل گیٹس اور ان کے ساتھی پال ایلن کو اپنی ایک اور چھوٹی کمپنی مائیکرو سافٹ کے لیے درست مصنوعات تیار کرنے میں مدد ملی اور آج ان کی کامیابی سے سب واقف ہیں۔

اسٹیو جابز
اسٹیو جابز کی زندگی ناکامیوں سے بھری ہوئی تھی ، پہلے تو وہ تعلیم مکمل نہیں کرسکے اور کالج چھوڑنا پڑا، پھر ان کو برا بزنس مین قرار دیا گیا اور ان کی اپنی کمپنی سے فارغ کردیا گیا۔

مگر پھر بھی وہ آئی فون جیسی ڈیوائسز سے دنیا بدلنے میں کامیاب رہے ، ایک یونیورسٹی سے 2005 میں خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ میری بلوغت کے بعد کی زندگی تباہ کن تھی اور میں بہت بڑی ناکامی تھا۔

مگر وہ ایک بار پھر ایپل میں واپس آئے اور باقی تاریخ ہے، ان کے اپنے الفاظ میں ‘کئی بار زندگی کے سفر میں آپ کا سر اینٹ سے ٹکرا جاتا ہے مگر یقین سے محروم نہ ہوں، میں بس اپنے مقصد سے محبت کی وجہ سے آگے بڑھنے میں کامیاب رہا’۔

چارلی چپلن
چارلی چپلن کے نام سے کون واقف نہیں مگر ان کا بچپن برطانیہ میں شدید غربت میں گزرا۔

جب وہ 2 سال کے تھے تو ان کے والد نے ماں کو چھوڑ دیا اور 7 سال کی عمر میں وہ ایک ورک ہاؤس میں رہنے پر مجبور ہوئے۔

بالغ ہونے کے بعد بھی انہیں متعدد بار ناکامیوں کا سامنا ہوا مگر ہمت نہیں ہاری اور آج دنیا کے چند کامیاب ترین کامیڈینز میں سے ایک میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

کرنل ہارلینڈ سینڈرز
یہ نام آپ نے کے ایف سی ریسٹورنٹس میں دیکھا ہوگا مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان کی پوری زندگی ناکامیوں سے بھری ہوئی ہے؟

وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے ان کو ناکامی کا سامنا ہوتا مگر ہمت نہیں ہاری اور 65 سال کی عمر میں وہ اپنی مقبول زمانہ چکن ریسیپی تیار کرنے میں کامیاب ہوئے، اس وقت ان کے پاس صرف 105 ڈالرز تھے اور وہ بھی سوشل سیکیورٹی چیک کی مہربانی سے۔

پھر وہ یوٹاہ میں کنٹیکی فرائیڈ چکن کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور اب دنیا بھر میں کے ایف سی کی ہزاروں فرنچائزز ہیں۔

سوکیرو ہونڈا
ہونڈا کمپنی کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا مگر اس کے بانی کی زندگی کا آغاز ناکامیوں سے ہوا تھا یہاں تک کہ ٹویوٹا کارپوریشن نے انہیں ملازمت دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد وہ کچھ وقت تک بیروزگار رہے۔

تھامس ایڈیسن سوکیرو ہونڈا کے آئیڈیل تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے اپنے گھر میں موٹر اسکوٹر تیار کرنے کا آغاز کیا اور پھر اپنے کاروبار کی بنیاد ڈالی۔

ان کی انجینئرنگ اور مارکیٹنگ صلاحیتوں سے انہیں ایک بڑے برانڈ کو قائم کرنے میں مدد ملی۔

تھامس ایڈیسن
لاتعداد ایجادات کرنے والے تھامس ایڈیسن کو ان کے اساتذہ نے کہا تھا کہ وہ کچھ بھی سیکھنے کے اہل نہیں۔

مگر اب ان کے نام پر 1093 ایجادات کے پیٹنٹس ہیں مگر ایک برقی بلب کو تیار کرنے کے لیے انہیں 10 ہزار سے زیادہ بار ناکامی کا سامنا ہوا۔

اس بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘میں 10 ہزار بار ناکام نہیں ہوا بلکہ ایک بار بھی ناکام نہیں ہوا، میں یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا کہ وہ 10 ہزار طریقے کارآمد نہیں اور درست طریقہ تلاش کرنے میں کامیاب رہا’۔

ابراہام لنکن
ابراہام لنکن کو امریکا کے چند عظیم ترین صدور میں سے ایک مانا جاتا ہے مگر عملی زندگی میں انہیں متعدد ناکامیوں کا سامنا ہوا۔

درحقیقت ابراہام لنکن کے پاس ایک عجیب منفرد اعزاز ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ایک جنگ میں کیپٹن کے طور پر گئے اور ان کی واپسی نچلے ترین فوجی عہدے کے ساتھ ہوئی۔

اس کے بعد متعدد کاروباری منصوبوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ، پھر سیاست میں قدم رکھا تو متعدد بار انتخابات میں ناکامی کا سامنا ہوا مگر آخرکار صدر بننے میں کامیاب ہوئے۔

اپنی ناکامیوں کے بارے میں ابراہام لنکن نے کہا تھا کہ ‘میری تشویش یہ نہیں کہ آپ زندگی میں ناکام ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ ناکامی کے سامنے ہار مان لیتے ہیں’۔

اسٹیفن کنگ
اسٹیفن کنگ امریکا کے بہت بڑے ناول نگار ہیں جن کے ادبی کام پر متعدد فلمیں اور شوز بنے ہیں۔

مگر جب انہوں نے اپنا پہلا ناول کیری تحریر کیا تو اسے 30 بار مسترد کیا گیا ، بلکہ انہیں کہا گیا کہ آج کے عہد میں اس طرح کے سائنس فکشن ناول فروخت نہیں ہوتے۔

ناکامی پر مایوس اسٹیفن کنگ نے کتاب کو کچرے میں پھینک دیا جہاں سے ان کی اہلیہ نے اسے نکالا اور کہا کہ اسے دوبارہ پبلشر کے پاس جمع کرائیں اور اس طرح ان کے کیرئیر کا آغاز ہوا جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

سلویسٹر اسٹالون
اب تو ایکشن فلمیں دیکھنے والے سلویسٹر اسٹالون کے نام سے واقف ہیں مگر ان کی نوجوانی کی زندگی بہت سخت تھی۔

ایک موقع پر وہ 3 ہفتے تک بے گھر رہے اور اس دوران ایک بس اسٹیشن میں رہنے پر مجبور ہوئے۔

اسی طرح جب وہ فلم راکی کا اسکرپٹ لکھ رہے تھے تو ان کے گھر کی بجلی کاٹ دی گئی اور وہ اپنے کتے کو 25 ڈالرز میں فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے تاکہ بجلی واپس آسکے، اور ہاں انہیں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ بار ٹیلنٹ ایجنٹس نے بطور اداکار مسترد کیا تھا۔

آئزک نیوٹن
آئزک نیوٹن کا نام سب کے لیے جانا پہچانا ہے مگر ان کی والدہ نے انہیں اسکول سے نکال لیا تھا کہ تاکہ وہ خاندان کے فارم کو چلاسکیں مگر وہ بری طرح ناکام رہے۔

اس کے بعد والدہ نے نیوٹن کو بنیادی تعلیم مکمل کرنے کی اجازت دی اور وہ بتدریج کیمبرج یونیورسٹی پہنچ گئے، آج انہیں دنیا کے عظیم ترین سائنسدانوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

جیمز ڈائیسن
ہوسکتا ہے کہ آپ نے یہ نام سنا نہ ہو مگر بیگ لیس ویکیوم کلینر کو تو دیکھا ہوگا اور یہ ان کی ہی ایجاد ہے۔

مگر وہ یہ کامیابی پہلی بار میں حاصل نہیں کرسکے بلکہ 15 سال تک کوشش کرتے رہے یا یوں کہہ لیں کہ 5126 بار ناکام ہوئے اور پھر جاکر بیگ لیس ویکیوم کلینر تیار کرنے اور کروڑوں ڈالرز کمانے میں کامیاب ہوئے۔

جے کے رولنگ
اب تو ہیری پوٹر ناولوں اور فلموں نے جے کے رولنگ کو بہت زیادہ امیر بنادیا ہے مگر پہلے ایسا نہیں تھا۔

وہ ہمیشہ سے مصنف بننا چاہتی تھیں مگر ان کے لیے زندگی کا سفر بہت مشکل ثابت ہوا۔

پہلے ماں کی بے وقت موت کے باعث ڈپریشن کا شکار رہیں، پہلی شادی ناکام ہوئی اور ایک بچے کو تنہا پالنے پر مجبور ہوگئیں جس کے دوران ان کے اخراجات حکومتی امداد سے پورے ہوتے تھے۔

ان مشکل حالات میں وہ ناول لکھنے کی کوشش بھی کرتی تھیں اور ان کے پہلے ناول کو کئی بار مسترد کیا گیا۔

خود ان کے الفاظ میں وہ جس سب سے بڑی ناکام شخصیت سے واقف ہیں وہ ان کی اپنی شخصیت ہے اور اسی ناکامی نے کامیابی کو ممکن بنایا۔

والٹ ڈزنی
ڈزنی کی انیمیٹڈ فلمیں دنیا بھر میں بہت زیادہ مقبول ہیں تو یہ سوچنا مشکل ہے کہ اس کمپنی کے بانی کے کام کو کبھی مسترد بھی کیا گیا ہو۔

مگر جب والٹ ڈزنی 22 سال کے تھے تو انہیں اخبار کی ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا اور وجہ تخلیقی صلاحیت کی کمی قرار پائی۔

مگر بعد میں وہ ڈزنی فلموں سے 30 سے زیادہ آسکر ایوارڈز جیتنے میں کامیاب رہے۔

جیک ما
علی بابا کمپنی کے بانی کی زندگی کی کہانی بھی کسی فلم سے کم نہیں جو خوابوں کی تعبیر میں شکست نہ ماننے کا حوصلہ دیتی ہے۔

بچپن میں بہت دبلا پتلا ہونے پر انہیں بچے بہت تنگ کرتے تھے مگر وہ بڑے بچوں کا مقابلہ کرتے۔

انہوں نے جان لیا تھا کہ تعلیم ہی بہتر زندگی کا راستہ ہے مگر وہ یونیورسٹی کے داخلہ امتحان میں 2 بار ناکام ہوئے جس کے بعدانہیں داخلہ ملا۔

گریجویشن کے بعد یونیورسٹی میں ملازمت کی تلاش بھی ایک چیلنج ثابت ہوئی اور متعدد بار انہیں مسترد کیا گیا، جس کے بعد انہیں ایک یونیورسٹی میں انگلش لیکچرار کا کام ملا۔

اس کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا تو وہ بھی ناکام ہوگیا، مگر وہ ناکامی سے دلبرداشتہ نہیں ہوئے اور چند سال بعد علی بابا کی بنیاد رکھی جس کی کامیابی کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں۔

کرس گارڈنر
اگر آپ نے فلم دی پرسیوٹ آف ہیپی نس دیکھی ہے تو جان لیں کہ وہ ایک حقیقی انسان پر مبنی تھی جو کرس گارڈنر ہیں۔

وہ ایک غریب خاندان میں پلے بڑھے اور تعلیم مکمل کرنےکے بعد نیوی میں شمولیت اختیار کی۔

پھر ایک بزنس چلانے کی کوشش کی جو ناکام رہا، ان کی شادی ناکام رہی اوروہ اپنے بیٹے کو تنہا پالنے پر مجبور ہوئے۔

مگر انہوں نے اپنے خواب کا تعاقب نہیں چھوڑا اور ان کی کوششیں بتدریج کامیاب ہوئیں اور وہ گارڈنر رچ ایل ایل سی کے بانی بنے جبکہ انہیں دنیا کے چند بہترین موٹیویشنل اسپیکرز میں سے ایک بھی مانا جاتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.