دبئی، سری لنکا کے راستے بھارت پہنچنے والی پاکستانی اشیا پر بھی پابندی کی تیاری
ایک طرف بھارت نے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا واویلا مچایا ہوا ہے، تو دوسری جانب خود بھارتی ادارے اعتراف کر رہے ہیں کہ تقریباً 50 کروڑ ڈالر مالیت کی پاکستانی اشیاء خفیہ طور پر متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، سنگاپور اور سری لنکا جیسے ملکوں کے ذریعے بھارت میں داخل ہو رہی ہیں۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی کی ایک رپورٹ میں ایک اعلیٰ بھارتی عہدیدار کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سے آنے والی اشیاء، جن میں خشک میوہ جات، کیمیکل، چمڑا، ٹیکسٹائل اور سیمنٹ شامل ہیں، ان ممالک کے ذریعے بھارت پہنچ رہی ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ متحدہ عرب امارات میں پاکستانی اشیاء کو ری لیبل اور ری پیک کیا جاتا ہے، جس کے بعد انہیں بھارتی مارکیٹ میں ”تیسری“ ملک کی مصنوعات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سنگاپور کے راستے کیمیکل بھارت میں داخل کیے جا رہے ہیں، جبکہ انڈونیشیا کے ذریعے پاکستانی سیمنٹ اور ٹیکسٹائل را مٹیریل بھارتی صنعتوں تک پہنچ رہا ہے۔
اسی طرح سری لنکا کے راستے خشک میوہ جات، نمک اور چمڑے کی اشیاء بھارت منتقل کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
بھارتی عہدیدار نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اب پاکستانی اشیاء پر براہ راست ہی نہیں بلکہ بالواسطہ (indirect) تجارت پر بھی مکمل پابندی عائد کی جائے۔ اس ”جامع پابندی“ کے ذریعے بھارت کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی مال کو دوسرے ملکوں کے لیبل میں بھی داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بھارت 22 اپریل کو پہلگام حملے کو جواز بنا کر پاکستان پر تجارتی پابندیوں کا اعلان کرچکا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت نے پلوامہ حملے کے ڈھونگ کے بعد 2019 بھی میں پاکستانی مصنوعات پر 200 فیصد ٹیکس لگا دیا تھا، جس کے بعد دو طرفہ تجارت تقریباً ختم ہو گئی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود بھارتی ہائی کمیشن کی رپورٹس کے مطابق بھارت اب بھی پاکستان سے تانبا، خشک میوہ جات، نمک، کپاس، سلفر، نامیاتی کیمیکل، معدنی ایندھن اور چمڑا درآمد کر رہا ہے — خواہ کسی تیسرے ملک کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت سیاسی سطح پر پاکستان دشمنی کا ڈھونگ رچا کر عوام کو گمراہ کر رہا ہے، جبکہ درحقیقت وہ پاکستانی مصنوعات پر انحصار کیے بغیر اپنا صنعتی پہیہ چلا ہی نہیں سکتا۔